تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

ڈینئیل پرل کیس، ملزمان کی نظر بندی غیر قانونی قرار

کراچی: ڈینیل پرل کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے بڑا فیصلہ دیتے ہوئے ملزمان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں امریکی صحافی ڈینیل پرل کیس میں بریت کے بعد ملزمان کی نظر بندی کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی،عدالت نے فریقین کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے احمد عمر شیخ سمیت چار و ں ملزمان کی نظر بندی کانوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

اپنے فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ملزمان بغیر کسی جرم کے اٹھارہ سال سے جیل میں ہیں، ملزمان کو جب عدالت طلب کرے گی تو پیش ہوں، ملزمان میں فہد نسیم، سیدسلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل شامل تھے، انسداد دہشتگردی کی عدالت نے احمد عمر شیخ کو اس کیس میں سزائےموت سنائی تھی، دیگر تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، سندھ ہائیکورٹ نےسزا کیخلاف اپیل منظور کرتے ہوئے ملزمان کو بری کردیا تھا۔

فیصلے سے قبل اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ ملزمان کی نظر بندی کا اختیار صوبائی حکومت کا ہے، جس پر جسٹس امجد علی سہتو نے نظر بندی نوٹی فکیشن میں قانونی خامیاں ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ داخلہ پڑھے لکھے لوگ بھی رکھ لے، نوٹی فکیشن میں کیا لکھا ہے کبھی خود بھی پڑھا ہے، کہاں لکھا ہے کہ عمر شیخ دہشت گرد ہے؟ اگر کسی کو بند بھی رکھنا ہے تو قوائد تو پورے کریں۔

جسٹس کریم الدین آغا نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے کہاں لکھا کہ عمر شیخ کا تعلق کسی کالعدم تنظیم سے ہے، نوٹی فکیشن میں کسی حساس ادارے کی رپورٹ کا ذکر نہیں، جمہوری معاشرے میں آپ کیسے کسی کو بند رکھ سکتےہیں۔اس موقع پر ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے بینچ پر اعتراض عائد کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بینچ عمر شیخ کی اس درخواست کو نہیں سن سکتا، اس بینچ نے ڈینیل پرل کیس میں اپیلوں کافیصلہ سنایا ہے، جس پر جسٹس کریم الدین آغا نے ریمارکس دئیے کہ اس کیس کا تعلق اپیلوں سےبالکل مختلف ہے، جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ ملزمان کی پہلے چھ ماہ اور پھر 3، 3 ماہ نظر بندی کی گئی، نظر بندی کی وجہ بیان تو کریں، کیا خدشے پر کسی کو بھی اس طرح بند کردیں گے؟۔

جسٹس کریم الدین آغا نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بہت سے دہشتگرد قتل اور اغوا کیس میں بری ہوئے، کیا آپ نے ان سب دہشت گردوں کونظر بند کیا؟، آپ صرف خدشے پرکسی کو کیسے نظر بند رکھ سکتے ہیں؟، آپ کہتے ہیں کہ ملزم کو رہا کردیا تو بم دھماکے کرے گا، کیا کسی کا کسی کالعدم تنظیم سےتعلق ہے؟

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر آپ نے نوٹی فکیشن جاری کرنا ہے تو لاجک بھی دینا ہوگی، آئین وقانون کسی شہری کےحقوق سلب کرنےکی اجازت نہیں دیتا۔SHC

رواں سال اپریل میں امریکی صحافی ڈینیل پرل قتل کیس کے ملزمان کی اپیلوں پر عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے تینوں ملزمان کو بری کر دیا تھا، سندھ ہائی کورٹ نے احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو بھی 7 سال قید میں تبدیل کر دیا، عدالت کا کہنا تھا کہ احمد عمر شیخ پر اغوا کا الزام ثابت ہوا ہے، تاہم ڈینیل پرل کے قتل کا الزام کسی ملزم پر ثابت نہیں ہوا جس پر دیگر تینوں ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:  سندھ حکومت نے صحافی ڈینیل پرل قتل کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

یاد رہے کہ برطانوی شہریت رکھنے والے احمد عمر شیخ کو انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے سزائے موت سنائی تھی، جب کہ ملزمان فہد سلیم، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی، یہ سزائیں ملزمان کو 15 جولائی 2002 کو سنائی گئی تھیں۔

ملزمان پر امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغوا اور قتل کا الزام تھا، ڈینیل پرل امریکی جریدے وال اسٹریٹ جنرل جنوبی ایشیا ریجن کے بیورو چیف تھے۔

Comments

- Advertisement -