تازہ ترین

آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

Cosmology in the light of Holy Quran

بہت سوچ کر منتہیٰ نے اپنی کتاب کا نام تجویز کیا تھا ۔۔ اور اب وہ ایڈیٹنگ کے آخری مراحل میں مصروف تھی۔۔ سینٹرٹیبل پر فائل اور پیجز بکھرے پڑے تھے ۔۔ تھک کر منتہیٰ نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔۔ کچھ سوچتے ہوئے ریموٹ تھام کر ٹی وی آن کیا ۔۔ پھر چینل پر چینل تبدیل کرتی گئی ۔ ایک سائنس چینل پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی کسی انٹر نیشنل کانفرنس کو لا ئیو دکھا نے کی فوٹیج چل رہی تھی ۔
’’ دنیا کے ذہین ترین افراد نیو یارک میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ۔۔ سر جوڑے بیٹھے تھے ۔ان کے پاس وسائل تھے ، کچھ کر دکھانے کا عزم بھی تھا ۔لیکن اُنکے پاس کمی تھی تو صرف ایک چیز کی ۔۔ اِس اعتراف کی ۔۔کہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ زمین انسان کو جنت بنا کر عطا کی تھی ۔لیکن اِسے جہنم کا نمونہ اُس نے خود بنایا ہے۔۔ سپر پاورز اور جی ایٹ کے اِن مما لک نے جو آج انسانیت کےنا خدا بنے بیٹھے ہیں ۔


اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


چند یورپی شرکاء کے بعد سٹیج پر آکر مائک سنبھالنے والا ۔۔ ارمان یوسف تھا ۔۔ ڈارک بلیک سوٹ ، بلیو لائنر ٹا ئی ، آنکھوں پرنفیس فریم کا چشمہ ۔۔ منتہیٰ نے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ سکرین زوم کی ۔۔ اس کو اتنے دن بعد دیکھنا کتنا اچھالگ رہا تھا ۔۔ وہ پہلے سے زیادہ گریس فل ہو گیا تھا ۔۔
"میں ایک ایسے خطے سے تعلق رکھتا ہوں جہاں کے باسیوں کی سوچ صدیوں سے یہ چلی آرہی ہے کہ قدرتی آفات ہمیشہ انسان کے برے اعمال پر اللہ کا عذاب ہوتی ہیں ۔۔ اپنی اِس سوچ کے مطابق وہ دعا ؤں ، نذر و نیاز ،صدقہ خیرات اوردرود و وضائف کے ذریعے اِن آفات کو ٹالنے کی سعی کرتے ہیں ۔۔ اِس یقین کے ساتھ کہ مجموعی اعمال میں کوئی غیر معمولی تبدیلی لائے بغیر خدا اُن پر سے نا گہانی بلا کو ٹال دے گا ۔”
"سات برس قبل جب میں نے ایک چھوٹے سے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کا آغا زکیا تھا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کے میرے لیے سب سے بڑا چیلنج لوگوں کی یہ قدامت پسند انہ سوچ بنے گی ۔ میں نے دیکھا کہ میرے وطن میں جو علاقے سب سے زیادہ قدرتی آفات کی زد پرتھے ۔وہاں کے باسی اپنی اِس سوچ میں اتنے ہی کٹر تھے ۔۔ ایسے لوگوں کا طرزِ زندگی تبدیل کر کے انہیں آفات سے از خود نمٹنے کی سٹر ٹیجی کی طرف لانا جان جو کھوں کا کام تھا ۔۔ بہت بار میرے اور میرے ساتھیوں کے قدم ڈگمگائے ۔۔ کئی دفعہ ہم سب کو اُن کے حال پر چھوڑ کر لوٹنے کو آمادہ ہوئے ۔۔ مگر خدا کو ہما رے  ہاتھوں ایک بڑا کام کروانا منظور تھا ۔۔ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اور زہر کا تریاق زہر ہے ۔ میں نے بھی مذہب کا توڑ مذہب سے کیا ۔ہمارے سامنے نبی آخرالزماں محمدﷺ کی عظیم مثال تھی کہ جب وہ تبدیلی کا پیغام لے کر نکلے تو پورا عرب  جہالت کے اندھیروں میں غرق تھا ۔۔”
"آج کے مسلمان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہُ اس نے محمد ﷺ کے اعجاز سے ظہور میں آنے والے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا ہے ۔ اُس نے کبھی اِسے’’ وژولائز ‘‘کرنے کی کوشش نہیں کی ۔میں نے جانا کہ دیرپا تبدیلیاں استقامت اور  خونِ جگر مانگتی ہیں ۔۔”
ارمان اِس وقت نیو یارک میں یو این او کے ایک معتبر پلیٹ فارم پرکھڑا تھا ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکا ۔۔ حاضرین پر ایک اچٹتی نظر ڈالی ۔۔جس میں نہ کوئی ڈر تھا نہ خوف ۔۔اور نہ ہی اِن نگاہوں میں سامنے بیٹھے دنیا کے ذہین ترین افرادکے لیے کوئی مرعوبیت تھی ۔۔ وہ مبہوت بیٹھےِ ا س شخص کو سن رہے تھے ۔۔ جو انہیں محمدﷺ کا اصل پیغام بتارہا تھا کہ انقلابات نہ خود کش دھماکوں کے زور پر آتے ہیں ۔۔ نہ توپوں ، ٹینکوں اور مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے بل بوتے پر۔

"انقلاب نام ہے دلوں کی تسخیر کا ۔۔”

ہم نے چھوٹے چھوٹے گاؤں ، دیہاتوں میں ٹریننگ کیمپس لگائے ۔۔ آگاہی کی مہم چلائیں ۔ اپنی راتوں کی نیندیں حرام کرکے کبھی سیلاب، کبھی طوفان کی قبل از وقت وارننگ جاری کر کے بر وقت لوگوں کا انخلا کروایا۔
زلزلے کے شدید جھٹکوں کے بعد ہم اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کبھی آرمی کے ساتھ اور کبھی ان سے بھی پہلے لوگوں کی مدد کو پہنچے ۔۔اور بعد کی
آبادکاری میں ااپنا مؤثر کردار ادا کیا ۔۔یقیناًہم لوگوں کی سوچ مکمل طور پر اب تک تبدیل نہیں کر پائے ۔وہاں کوئی ہمیں دیوتا سمجھتا ہے تو کوئی اپنا مسیحا ۔۔لیکن ہماری جدوجہد ہر طرح کے ٹائٹلز سے ماوراء تھی۔
آج آپ پاکستان میں جاکر دیکھیں تو آپ کو ہر علاقے میں اسکا اپنا ڈیزاسٹر سینٹر ملے گا ۔۔ جو نا صرف جیو سینسنگ اور کمپیوٹر کی تمام سہو لیات سے پوری طرح آراستہ ہے ۔ بلکہ اُسے وہاں کے مقامی افراد اپنے طور پر خود چلاتے ہیں ۔اِس سے وہاں لوگوں کو بہتر روزگار میسر آیا ۔۔ اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر بھی قابو پانے میں مدد ملی ۔۔
آج شمالی علاقہ جات کا غیور پٹھان دوست اور دشمن میں فرق کی تمیز رکھتا ہے ۔۔ وہ پاک فوج کے ساتھ کھڑا اپنی سرحدوں کا محافظ ہے ۔۔ اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کا کھیل رچانے والوں کی گلی سڑی لاشوں کو گدھ نوچ کر کھا چکے ہیں۔۔ یقیناًہمارا سفر ابھی ختم نہیں ہوا ۔۔جب تک پاکستان کا ہر شہری اپنے طور پر نا گہانی آفات سے نمٹنے کی اہلیت حاصل نہیں کر لیتا ہمارا مشن جاری رہے گا ۔۔
منتہیٰ نے قریب جا کر حسرت سے سکرین کو چھوا ۔۔۔ رامین نے کہا تھا ۔۔ آپی وہ ایک دفعہ ضرور آئیں گے ۔۔ارمان نیو یارک میں تھا ۔۔۔ بہت قریب ۔۔ کیا وہ آئے گا ۔۔۔؟؟؟؟

************

"تو آخر تم جیتے ۔۔اور میں ہارا ۔۔”
درِ محبوب پر دستک سے پہلے ۔۔ارمان نے اپنے باغی دل کو مخاطب کیا ۔ لاکھ پہرے ڈالے ۔ زنجیریں پہنائیں لیکن بے سود ۔۔ آخر تمہیں رامین کی غلط فہمی بھی تو دور کرنی ہے۔۔ بے ایمان دل نے ایک اور عذرِ ناتواں تراشا ۔۔ ارمان نے سر جھٹک کر کوئی دسویں دفعہ بیل کی ۔۔ وہ جانتا تھا کہ منتہیٰ کے در۔ دیر سے ہی وا ہوا کرتے ہیں ۔۔ چند منٹ بعددروازے کے دوسری طرف آہٹ سنائی دی ۔۔ پھرڈور آئی سے کسی نے جھا نکا ۔۔ دروازہ کھلنے پر ارمان پلٹا ۔۔
دونوں کی نظریں ملیں ۔ وقت کی چال تھمی ۔۔ سانسیں ساکت ہوئیں ۔ اور پھر ۔۔ وہ دونوں ہی حقیقت کی دنیا میں لوٹ چکے تھے ۔

ہم کے ٹہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
کب بنیں گے آشنا کتنی مدا راتوں کے بعد

منتہیٰ نے راستہ چھوڑا ۔۔ آئیے ۔۔
ارمان فلیٹ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ڈرائنگ روم تک آیا ۔۔ نینسی موجود نہیں تھی ۔۔ پھر مڑ کر اُس دشمنِ جاں کو دیکھا ۔۔اس کی چال کی لنگڑاہٹ نوٹ کی ۔۔ قریب ہی جا نماز بچھی تھی ۔۔ شاید منتہیٰ نماز پڑھ رہی تھی ۔۔بیٹھیے ۔۔اُس کی آوا ز اتنی مدھم تھی ۔۔ کہ ارمان کو بمشکل سنائی دی نہیں ، میں پہلے نماز پڑھو نگا ۔۔ کیا میں وضو کر سکتا ہوں ۔۔؟؟
منتہیٰ نے کچھ کہے بغیر اُسے واش روم کا راستہ دکھایا ۔۔ اور خود کچن میں کافی بنانے چلی آئی ۔۔
کیا دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں ۔۔؟؟ ۔کل سے اُسے دیکھ کر لبوں پر بس ایک ہی دعا تھی ۔۔۔ اور وہ آگیا تھا ۔
ارمان نے سلام پھیر کر سجدے کی جگہ کو انگلیوں سے چھوا ۔۔ آدھی جا نماز گیلی تھی ۔آنسوؤں سے ۔۔ وہ کب سے رو رہی
تھی ۔۔ ؟؟۔دکھ سے سوچتے ہوئے ارمان نے گیلی جا نماز فولڈ کی ۔
کیسی ہیں آپ ۔۔؟؟ کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے ارمان نے اُسے بغور دیکھا ۔۔ سوجی متورم آنکھیں گواہ تھیں کہ تازہ برسات ہوئی تھی۔

تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہر باں راتوں کے بعد

ٹھیک ہوں ۔۔ مختصر جواب دے کر منتہیٰ سینٹر ٹیبل پر پھیلے پیجز اور فائل سمیٹنے کے لیئے اٹھی ۔۔ پھر لڑکھڑائی ۔۔ کل سے وہ سب کچھ
ویسا ہی پڑا تھا ۔
آپ بیٹھیے میں سمیٹتا ہوں ۔۔ ارمان کافی کا مگ ہاتھ سے رکھ کر اٹھا ۔۔ پھر پیجز کو فائل میں لگاتے ہوئے چونکا ۔۔ قرآنِ پاک کی
آیات بمع تفاسیر تھیں۔۔ یہ آپ کوئی کتاب لکھ رہی ہیں کیا ۔۔؟؟
جی ۔۔ بس ایک چھوٹی سی کوشش کی تھی ۔۔۔ اب مکمل ہونی والی ہے ۔
اچھا ۔۔پھر کوئی پبلشر ڈھونڈا ۔۔؟؟ارمان کی دلچسپی بڑھی ۔۔ وہ جانتا تھا ۔۔ منتہیٰ ایک بہترین رائٹر ہے ۔
نہیں ۔۔ یہ شائع نہیں کروانی ۔۔ بس یونہی لکھی ہے ۔
ارمان نے اُسے بغور دیکھا ۔۔ وہ پہلے کی نسبت کچھ مزید کمزور، زرد ۔۔اور بجھی بجھی سی تھی ۔
میں یہاں ایک کانفرنس کے سلسلے میں آیا تھا ۔۔ سوچا آپ سے مل لوں ۔۔ کوئی مسئلہ تو نہیں ۔۔ اُسے اب بھی بہت فکر تھی ۔ نہیں۔۔ جھکی نظروں کے ساتھ پھر مختصر جواب آیا ۔۔ ایک لمحے کو سکارف درست کرنے کے لیئے منتہیٰ دایاں ہاتھ سر تک لے کرگئی ۔۔ ارمان کی نگاہیں اپنی جگہ منجمد ہوئیں ۔
منتہیٰ کی نازک سی کلائی میں ارمان کا دیا ہوا بریسلٹ تھا ۔۔
یہ اعزاز ملا بھی تو کب ۔۔؟؟ جب اُن کے درمیان ۔۔ صدیوں کے فاصلے تھے ۔۔ اور فاصلوں سے اونچی اَنا کی دیوار حائل تھی ۔
کیا میں اِسے ساتھ لے جاسکتا ہوں ۔۔؟؟ اٹھتے ہوئے ارمان نے منتہیٰ سی اسکی بک فائل لے جانے کی جازت چاہی ۔ میں دو تین دن تک یہیں ہوں ۔۔ نئے سال کی تقریبات کے وجہ سے تمام فلائٹس بک ہیں ۔۔میں جاتے ہوئے آپ کو واپس کرجاؤں گا۔
اُس کے بے ایمان دل نے اٹھتے ہوئے بھی دوبارہ حاضری کا بہانا تراش لیا تھا ۔۔
ہوٹل پہنچ کر ارمان نے کافی کے سپ لیتے ہوئے منتہیٰ کے پاس سے لائی فائل پڑھنا شروع کی ۔۔۔ اور پھر صبح تک ایک ہی نشست میں وہ کتاب ختم کر چکا تھا ۔۔ منتہیٰ کی صلاحیتیں ایک بڑے حادثے سے گزرنے کے بعد کچھ اور کھل کر سامنے آئی تھیں ۔۔ ’’ جب غرور کا بت ٹوٹ جائے ۔۔ تو اندر سے نکھرا ، اُجلا اور ہر حال میں اپنی اوقات یاد رکھنے والا انسان اللہ کا عاجز بندہ باہر نکل آتا ہے ۔۔”
ارمان شام کو اپنے ہوٹل سے نکلا ۔۔ برف کے چھوٹے چھوٹے گالے گرنے لگے تھے ۔۔ اور جاتے سال کے آخری سورج نے غروب ہونے سے بہت پہلے ہی ۔۔اپنا چہرہ چھپا لیا تھا ۔۔ دکھوں اور کڑی آزمائشوں پر محیط زندگی کا ایک سال ختم ہونےکو تھا۔وہ فیصلہ کر کے نکلا تھا کہ منتہیٰ کو اِس کتاب کی پبلشنگ پر ضرور قائل کرے گا ۔
کل کی نسبت منتہی آج قدرے بہتر حالت میں تھی ۔۔
"آپی آپ کو بہت مس کرتی ہیں ‘‘۔۔ کانوں میں رامین کے کہے الفاظ گونجے
کافی دیر کی بحث کے بعد منتہیٰ کتاب کو شائع کرانے پر راضی ہوئی تو ارمان سکون کا سانس لیتے ہوئے جانے کے لیے اٹھا ۔۔
پبلشنگ کی تمام ذمہ داری وہ پہلی ہی لے چکا تھا ۔۔
ارمان ۔۔ منتہیٰ نے اُسے پکارا ۔۔ وہ ٹھٹک کر پلٹا ۔۔ اِس پکار میں کچھ تھا ۔۔
ارمان۔۔ آ۔۔آپ ۔۔ وہ اٹکی ۔۔
کیا بات ہے منتہیٰ۔۔؟؟ وہ براؤن جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پوری طرح اُسی کی طرف متوجہ تھا ۔۔
ارمان۔۔ آپ مجھے بھی پاکستان ساتھ لے جائیں ۔۔ منتہیٰ نے پھولی سانسوں کے ساتھ بمشکل اپنی بات مکمل کی ۔
ایک لمحے کو ساری دنیا گھومی ۔۔ کئی مدار بدلے گئے تھے ۔۔ یہ لرزتی پلکیں ، یہ کپکپاتے لب۔۔، یہ کانپتے ہاتھ ۔۔ وہ کیا کہناچاہ رہی تھی ۔۔۔؟؟ ارمان کا دل یکدم بہت زور سے دھڑکا تھا ۔
دبے پاؤں بہت سے لمحے سرکے ۔۔ کچھ ساعتیں گزریں ۔۔ پھر ارمان خود کو سنبھال چکا تھا ۔۔
لیکن آپ تو ایم آئی ٹی جوائن کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔۔ پھر ناسا مشن ۔ ۔۔آپ کا خواب تھا ،، اُسے بھی تو پورا کرنا ہے آپ نے ۔۔ ارمان نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ چوٹ کی ۔
اور لوہا شاید کچھ زیادہ ہی گرم تھا ۔۔بھاڑمیں جائیں خواب ۔۔ مجھے صرف اپنے وطن ۔ اپنی مٹی میں واپس جانا ہے ۔۔ اپنے پیاروں کے پاس ۔۔۔ ناسٹالجیا کا اٹیک شدید تھا ۔۔ آنسوؤں کی جھڑی لگی ۔
ارمان نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے۔۔ کہ اس کا سیل تھر تھرایا ۔
ممی کالنگ ۔۔وہ ایکسکیوز کرتا ہوا راہداری تک آیا۔۔ کال ریسیو کرنے سے پہلے وہ ایک فیصلہ کر چکا تھا ۔
بہت دیر تک چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ۔۔ منتہیٰ روتی رہی ۔۔ پھر اُسے یکدم ارمان کا خیال آیا ۔۔ وہ چلا تو نہیں گیا ۔۔ وہ تیزی سے لپکی ۔۔ ارمان کی آوازپر اُس کے بڑھتے قدم تھمے۔
جی پاپا ۔۔ بس آپ کل ہی جا کر انکل سے بات کر کے تاریخ رکھ آئیں۔۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ۔
آہٹ پر چونک کر پلٹاپھر جلدی سے خدا حافظ کہہ کر کال کاٹی۔
سوری ممی کی باتیں ہی ختم نہیں ہو رہی تھیں ۔۔ آپ ساتھ چلنا چاہتی ہیں ۔تو موسٹ ویلکم ۔۔۔ خوش دلی سے جواب دے کر وہ دروازے کی طرف بڑھا ۔
ارمان۔۔اُس کے بڑھتے قدم ایک دفعہ پھر تھمے ۔۔ وہ مڑا  ارمان آپ یوسف انکل سے کون سی تاریخ رکھنے کی بات کر رہے تھے ۔۔ ؟؟منتہیٰ کی سوئی کہیں اور اَٹکی رہ گئی تھی وہ ٹھٹکا ۔۔ بمشکل تھوک نگلتے ہوئے گویا ہوا ۔۔ وہ منتہیٰ۔۔ دراصل ممی مجھے اب بالکل بھی ٹائم دینے کے لیے تیار نہیں ۔۔ وہ میری واپسی کے چند ہفتے بعد ہی کی کوئی شادی کی تاریخ رکھ دیں گی ۔
آپ شادی کر رہے ہیں ۔۔۔؟؟ منتہیٰ کو لگا جیسے کسی نے سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔کئی ماہ پہلے ایک ایسا وقت ارمان پر بھی آیا تھا ۔ لیکن کس سے ۔۔؟؟
وہ بس ممی ،پاپا کی جاننے والی کوئی فیملی ہے ۔۔ اچھا میں چلتا ہوں ۔ اللہ حافظ
بظاہر بہت عام سے لہجے میں بتا کر ارمان جا چکا تھا اور منتہیٰ وہیں راہداری میں دیوار سے ساتھ بیٹھتی چلی گئی تھی ۔

جاری ہے
************

Comments

- Advertisement -
صادقہ خان
صادقہ خان
صادِقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں‘ انہوں نے ماسٹر پروگرام اپلائیڈ فزکس میں مکمل کیا جبکہ دوسرا ماسٹر آسٹرو فزکس آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے جاری ہے