اردو میں جن لوگوں نے ایک وسیع تر ادبی ، سماجی اور تہذیبی آگہی کےساتھ تنقید لکھی ہے ان میں ایک نام عابد علی عابد کا بھی ہے۔ عابد علی عابد اردو ہی نہیں فارسی اور انگریزی زبان و ادبیات کے شناسا بھی تھے۔
وہ 1971ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ سیّد عابد علی عابد ادیب، نقّاد، محقّق، شاعر، مترجم اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے ممتاز تھے۔
17 ستمبر 1906ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہونے والے عابد علی عابد نے لاہور سے ایل ایل بی تعلیم حاصل کی اور وکالت کرنے لگے لیکن ان کا علمی اور ادبی ذوق انھیں پنجاب یونیورسٹی تک لے آیا جہاں سے فارسی میں ایم اے کیا اور دیال سنگھ کالج لاہور میں اسی زبان کے پروفیسر مقرر ہوگئے۔ حکیم احمد شجاع کے رسالے ’’ہزار داستاں‘‘ سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ دیال سنگھ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مجلسِ ترقیٔ ادب سے وابستہ ہوئے اور اس کے سہ ماہی جریدے ’’صحیفہ‘‘ کی ادارت بھی کی۔
عابد علی عابد کی تصانیف اصولِ انتقاد، ادب کے اسلوب، شمع، یدِ بیضا، سہاگ، تلمیحاتِ اقبال، طلسمات، میں کبھی غزل نہ کہتا کے نام سے شایع ہوئیں۔ بلاشبہ عابد علی عابد نے ادب کی مختلف اصناف میں اپنا زورِ قلم منوایا۔ ان کی تخلیقات میں تنقیدی مضامین کے علاوہ ڈرامے، افسانے اور شاعری سبھی کچھ شامل ہیں۔