دھیمے لب و لہجے، مگر رعب دار شخصیت کے مالک شفیع محمد شاہ نے پاکستان ٹیلی وژن ڈراموں میں اپنی لاجواب اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے اور خود کو ورسٹائل فن کار بھی ثابت کیا۔ آج شفیع محمد شاہ کا یومِ وفات ہے۔ وہ 17 نومبر 2007ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔
شفیع محمد شاہ نے اردو اور سندھی فلموں میں بھی کردار نبھائے، لیکن پاکستان بھر میں انھیں ٹیلی ویژن ڈراموں کی بدولت مقبولیت ملی۔ ان کے کئی ڈرامے یادگار ثابت ہوئے۔
1948ء میں کنڈیارو میں پیدا ہونے والے شفیع محمد شاہ نے سندھ یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور ایک زرعی بینک میں ملازمت اختیار کرلی۔ لیکن وہ بطور اداکار کام کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کی آواز میں خاص قسم کی مٹھاس، نرمی اور لہجے میں وہ دھیما پن تھا جس میں ایک جاذبیت اور کشش تھی۔ ان کا یہی انداز اور لب و لہجہ انھیں ریڈیو پاکستان تک لے گیا جہاں وہ صدا کار کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔
فن کار کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کرنے کے بعد شفیع محمد شاہ نے ملازمت ترک کی اور لاہور چلے گئے جہاں اداکار محمد علی نے فلم کورا کاغذ میں ایک کردار دلوا دیا۔ اسی زمانے میں ٹیلی وژن کے نہایت قابل اور نام ور پروڈیوسر شہزاد خلیل نے انھیں اپنے ڈرامے اڑتا آسمان میں ایک کردار کی پیش کش کی اور یوں ٹی وی کے ناظرین سے ان کا تعارف ہوا۔ انھوں نے لاہور میں قیام کے دوران چند فلموں میں کام کیا اور پھر کراچی آگئے۔
شفیع محمد شاہ کو سیریل تیسرا کنارا اور آنچ سے ملک بھر میں شہرت ملی۔ آنچ وہ ڈرامہ ثابت ہوا جس نے زبردست مقبولیت حاصل کی اور وہ ہر دل عزیز فن کار بن گئے۔
ٹیلی وژن ڈراموں کے مقبول ترین ڈراموں آنچ، چاند گرہن، جنگل، دائرے، تپش، کالا پل، ماروی میں شفیع محمد شاہ نے اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرا اور ناظرین کے دل جیتے۔
اس اداکار نے سیاست کی دنیا میں بھی قدم رکھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ٹکٹ پر انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب میں حصّہ لیا، لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔ یہ 2002ء کی بات ہے۔
حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا اور بعد از مرگ شفیع محمد شاہ کے لیے ستارۂ امتیاز کا اعلان کیا۔