تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

روحی بانو: شاید کوئی اس پری چہرہ اداکارہ کے لیے کچھ نہیں‌ کرسکتا تھا

شائستہ آداب، مہذّب، نہایت سلجھی ہوئی اور باوقار روحی بانو ایک منجھی ہوئی اداکارہ تھیں‌ جنھوں نے فن کی دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ٹیلی ویژن ڈراموں میں انھوں نے جو کردار نبھائے وہ لازوال ثابت ہوئے اور پاکستان میں ایک نسل ان کے فن کی معترف اور پرستار ہے۔

پھر دنیا کے اسٹیج پر اُن کی زندگی کا وہ کھیل شروع ہوا جس کی تکمیل میں روحی بانو کی باقی ماندہ عمر تمام ہو گئی۔ 25 جنوری 2019ء تک جاری رہنے والے اس کھیل کی چند جھلکیاں ہی اتنی درد انگیز اور کرب ناک تھیں‌ کہ دیکھنے والوں کا کلیجہ پھٹ گیا۔

اداکارہ کی پرستار نسل ہی نہیں، بعد میں ان کے ڈراموں کی ریکارڈنگ دیکھنے والی نسل نے بھی فاؤنٹین ہاؤس میں پڑی ہوئی اور گلبرگ کی سڑکوں پر مجنونانہ انداز میں پھرتی روحی بانو کا دکھ شدّت سے محسوس کیا۔ سبھی افسردہ و ملول رہے۔ وہ نفیسائی الجھنوں کا شکار تھیں اور عدم تحفظ کا شکار بھی۔

یہ سب ان کی نجی زندگی کے نشیب و فراز اور صدمات کی وجہ سے تھا۔ پہلے ازدواجی زندگی کی ناکامی کے دکھ نے انھیں گھائل کیا اور بعد میں جواں سال بیٹے کی موت نے اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ یوں روحی بانو دماغی مریض بن گئیں۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے حالات اور مشکلات بیان کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی تھی کہ انھیں قبضہ مافیا سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ چند سال قبل ان پر نامعلوم افراد کی جانب سے تشدد کی خبر بھی سامنے آئی تھی۔ ایک پری چہرہ، خوش گفتار اور تعلیم یافتہ مہذّب خاتون کو نیم پاگل یا مجنونانہ انداز میں سڑکوں پر پھرتا دیکھنا ان کے ساتھی فن کاروں اور چاہنے والوں‌ کے لیے باعثِ کرب تھا، لیکن شاید کوئی ان کے لیے کچھ نہیں‌ کرسکتا تھا۔

پاکستان کی نام وَر اداکارہ اور پُرکشش شخصیت کی مالک روحی بانو نے 10 اگست 1951ء کو ممبئی میں آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے والد کا نام اللہ رکھا تھا جو ہندوستان کے مانے ہوئے طلبہ نواز تھے۔ والد نے دوسری شادی کی تو والدہ روحی بانو اور دوسرے بچّوں کو لے کر پاکستان چلی آئیں۔ یہاں لاہور میں روحی بانو نے اپنی تعلیم مکمل کی اور نفسیات کے مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ ان کی دو شادیاں ہوئیں جو ناکام رہیں۔ ان کا اکلوتا بیٹا ناگہانی موت کا شکار ہوا اور روحی بانو کا کہنا تھا کہ اسے جائیداد کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔

روحی بانو کا شمار اُن فن کاروں میں ہوتا تھا جنھوں نے پاکستان میں ٹی وی کا آغاز دیکھا اور پھر اس کے عروج اور مقبولیت میں‌ اپنا حصّہ ڈالا۔ 1970ء اور 1980ء کے عشروں میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی روحی بانو نے ٹیلی ویژن کے ساتھ سلور اسکرین پر بھی شان دار پرفارمنس سے فلم بینوں کے دل جیتے۔ انھوں نے اپنے وقت کے ممتاز ڈرامہ نگاروں اشفاق حسین، منو بھائی، بانو قدسیہ، انور سجاد اور حسینہ معین کی کہانیوں میں اپنے کردار نبھائے۔

اداکارہ کے سپر ہٹ ڈراموں میں کرن کہانی، کانچ کا پُل، زیر زبر پیش، ایک محبت سو افسانے، دروازہ، دھند، زرد گلاب، سراب، پکّی حویلی شامل ہیں۔ ان کی قابلِ ذکر فلموں میں پالکی، امنگ، انسان اور فرشتہ، راستے کا پتھر، انوکھی، گونج اٹھی شہنائی، خدا اور محبت، دشمن کی تلاش، ضمیر، آج کا انسان اور دیگر کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ روحی بانو نے وحید مراد، محمد علی، آصف رضا میر، غلام محی الدین اور سدھیر کے ساتھ فلموں میں اپنے کردار ادا کیے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن پر اپنے وقت کے باکمال فن کاروں کے ساتھ انھوں نے اپنی جان دار اداکاری سے ناظرین کو اپنا مداح بنایا۔

نئے فن کاروں کے لیے اکیڈمی کا درجہ رکھنے والی روحی بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ علاج کی غرض سے ترکی کے شہر استنبول میں‌ مقیم تھیں اور وہاں ایک اسپتال میں دس روز وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد دنیائے فانی سے کوچ کیا۔

Comments

- Advertisement -