تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

مقبول شاعر اور ڈرامہ نویس عدیم ہاشمی کی برسی

جدید اردو شاعری میں عدیم ہاشمی کو مقبول شعرا میں‌ شمار کیا جاتا ہے جن کے سادہ و دل کش انداز کو پڑھنے والوں نے بہت سراہا۔ آج عدیم ہاشمی کا یومِ وفات ہے۔ وہ2001ء میں وفات پاگئے تھے۔

عدیم ہاشمی نے شاعر کے علاوہ ڈرامہ نویس کے طور پر بھی شہرت حاصل کی جب کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں کو بے انتہا مقبولیت ملی۔ پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ان کا تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ’’آغوش‘‘ آج بھی ناظرین کے ذہنوں میں‌ محفوظ ہے جس کے اداکاروں‌ کو بھی بہت شہرت اور پذیرائی ملی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان بھر میں‌ ٹیلی وژن کے ناظرین میں مقبول ہونے والے ڈرامہ سیریز گیسٹ ہاؤس کی بھی چند کہانیاں ان کی تحریر کردہ تھیں۔

عدیم ہاشمی کا اصل نام فصیح الدّین تھا۔ وہ یکم اگست 1946ء کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئے اور فیصل آباد میں زندگی کا ابتدائی عرصہ گزارا۔ بعد میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہوگیا۔ اس دوران ان کا شعری سفر شروع ہوگیا اور لاہور آنے کے بعد ان کا کلام ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگا۔ عدیم ہاشمی نے متعدد گیت بھی لکھے جو ریڈیو اور ٹی وی پر پیش کیے گئے۔

ان کی کتابیں ’’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘، ’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘ کے نام سے شایع ہوئیں‌۔

عدیم ہاشمی امریکا کے شہر شکاگو میں مقیم تھے اور وفات کے بعد وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔ ان کی یہ مشہور غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

سیکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب
ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا

یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

Comments

- Advertisement -