1747ء میں فوج کے 25 سالہ کمانڈر، نادر شاہ کے عہد کی ممتاز شخصیت اور قبائلی سردار احمد خان ابدالی کو اتفاقِ رائے سے ریاست کا حکم ران منتخب ہوگئے۔ اس کے لیے قندھار میں افغان جرگہ منعقد کیا گیا تھا۔ احمد شاہ ابدالی کو درّانی سلطنت اور جدید افغانستان کا بانی کہا جاتا ہے۔
احمد شاہ ابدالی نادر شاہ کی فوج اور عمائدین میں بہت مقبول تھے۔ انھوں نے اپنی سلطنت کو منظّم کرتے ہوئے اسے افغانستان کا نام دیا جسے مؤرخین نے درّانی سلطنت بھی لکھا ہے۔ وہ 16 اکتوبر 1772ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا مقبرہ قندھار میں ہے۔
اسی احمد شاہ ابدالی نے اس وقت کے ملتان شہر میں آنکھ کھولی تھی جو اب پاکستان کا حصّہ ہے۔ مؤرخین کے مطابق احمد شاہ کے والد خان زمان ایک فوجی مہم پر افغانستان سے ملتان آئے تھے، جہاں قیام کے دوران انھوں نے مقامی عورت سے شادی کی اور اسی خاتون کے بطن سے احمد شاہ ابدالی پیدا ہوئے۔ بعد میں احمد شاہ افغانستان چلے گئے اور فوج میں بھرتی ہوئے۔ انھوں نے ترّقی کرتے ہوئے افغان حکم ران نادر شاہ کی فوج کے سپہ سالار کا عہدہ حاصل کیا۔
احمد شاہ نے اپنے دورِ حکومت میں زبردست کام یابیاں حاصل کیں اور ان کا بڑا کارنامہ تمام افغان قبائل کو اکٹھا کرکے ایک ملک کی بنیاد رکھنا ہے۔
احمد شاہ ابدالی نے کئی جنگیں لڑیں اور ان کی فوج کو کام یابی نصیب ہوئی جب کہ برصغیر میں ان کی سلطنت مغربی ایران سے لے کر ہندوستان کے شہر سرہند تک پھیل گئی۔ وہ شمال میں وسطی ایشیا کے آمو دریا سے لے کر جنوب میں بحرِ ہند کے ساحل تک حکم ران تھے۔
نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی نے جس ذہانت اور لیاقت کا مظاہرہ کیا اور حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے قبائل کو جس طرح یکجا کیا اسے تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ آج بھی انھیں افغانستان میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے اور اکثریت انھیں پیار اور احترام سے احمد شاہ بابا کہتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ احمد شاہ ابدالی کو سندھ سے لاکھوں کی آمدنی ہوتی تھی اور سندھ کے حکم ران اس افغان بادشاہ کے اطاعت گزار تھے۔