تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

جنگِ طرابلس: 11 سالہ فاطمہ مسلمان سپاہیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں

آج عالمِ اسلام کی ایک کم سن بیٹی فاطمہ بنتِ عبداللہ کی شہادت کا دن ہے۔ انھوں نے 18 جون 1912ء کو جنگِ طرابلس میں مجاہدین کو پانی پلاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔

فاطمہ بنت عبداللہ لیبیا کے شہر طرابلس میں 1898ء میں پیدا ہوئیں۔ اسلامی ماحول میں تعلیم و تربیت پانے والی فاطمہ عرب قبیلے کے سردار کی اکلوتی بیٹی تھیں۔

اطالوی اور سلطنتِ عثمانیہ کی افواج کے مابین لڑی گئی اس جنگ میں اگرچہ طاقت اور تعداد میں مسلمان کم تھے، لیکن مسلمان سپاہی ہی نہیں ان کے ساتھ عرب عورتیں بھی دشمن کی طاقت اور عددی برتری سے بے نیاز اور جذبہ شہادت سے سرشار میدان میں نظر آئیں۔ کئی خواتین نے دورانِ جنگ زخمی سپاہیوں کی مرہم پٹّی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھائی تھی جن میں فاطمہ بھی شامل تھیں۔

شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال نے اسی کم عمر شہید پر ایک نظم بھی لکھی تھی جو بانگِ درا میں شامل ہے، لیکن اس کلام میں اقبال نے جہاں فاطمہ کو ان کی جرات اور بہادری پر سلام پیش کیا ہے، وہیں امّتِ مسلمہ کے ظاہری امراض کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو لائقِ توجہ ہے۔

18 جون کو دشمن سے ایک جھڑپ کے دوران جب فاطمہ بنتِ عبدُ اللہ چند زخمی مجاہدوں کو پانی پلا رہی تھیں تو اطالوی سپاہی نے انھیں گولیوں‌ کا نشانہ بنایا تھا۔

اس ننّھی مجاہدہ پر لکھی گئی اقبال کی نظم پڑھیے۔

"فاطمہ بنت عبدُاللہ”
فاطمہ! تو آبروئے امّتِ مرحوم ہے
ذرہ ذرّہ تيری مشتِ خاک کا معصوم ہے

يہ سعادت، حورِ صحرائی! تری قسمت ميں تھی
غازيانِ ديں کی سقّائی تری قسمت ميں تھی

يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سپر
ہے جسارت آفريں شوقِ شہادت کس قدر

يہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر ميں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر ميں تھی!

اپنے صحرا ميں بہت آہو ابھی پوشيدہ ہيں
بجلياں برسے ہوئے بادل ميں بھی خوابيدہ ہيں!

فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تيرے غم ميں ہے
نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم ميں ہے

رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگيز ہے
ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبريز ہے

ہے کوئی ہنگامہ تيری تربتِ خاموش ميں
پَل رہی ہے ايک قومِ تازہ اس آغوش ميں

بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعتِ مقصد سے ميں
آفرينش ديکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے ميں

تازہ انجم کا فضائے آسماں ميں ہے ظہور
ديدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نور

جو ابھی ابھرے ہيں ظلمت خانۂ ايّام سے
جن کی ضو ناآشنا ہے قيدِ صبح و شام سے

جن کی تابانی ميں اندازِ کہن بھی، نو بھی ہے
اور تيرے کوکبِ تقدير کا پَرتو بھی ہے

Comments

- Advertisement -