تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

بلراج ساہنی: باکمال اداکار، ہمہ جہت شخصیت

ہندوستانی فلمی صنعت کے باکمال اداکار اور ہمہ جہت شخصیت بلراج ساہنی 13 اپریل 1973ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فن کار تھے جنھوں نے نہ صرف اداکار بلکہ اسکرین رائٹر، ڈراما اور سفر نامہ نگار کی حیثیت سے بھی اپنے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور خوب نام و مقام پیدا کیا۔

بلراج ساہنی کا شمار ان اداکاروں‌ میں‌ کیا جاتا ہے جن کا کام دوسروں کے لیے مثال اور قابلِ تقلید بنا۔ 1913ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہونے والے بلراج ساہنی نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ 30ء کی دہائی کے آخر میں انھوں نے ایک جامعہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

بعد میں لندن چلے گئے جہاں ریڈیو انائونسر کی ملازمت کی، لیکن 1943ء میں ہندوستان واپس آ گئے۔ اداکاری کا شوق انھیں شروع سے ہی تھا۔ وہ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن کے ڈراموں میں حصہ لیتے رہے، 1946ء میں فلم ’’انصاف‘‘ سے اداکاری کا آغاز کیا۔ اسی سال خواجہ احمد عباس کی فلم ’’دھرتی کے لال‘‘ اور پھر ’’دور چلیں‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔

1953ء میں ’’دو بیگھے زمین‘‘ میں کام سے خوب شہرت حاصل کی۔ کینز کے فلمی میلے میں انھیں انعام سے بھی نوازا گیا۔ ’’کابلی والا‘‘ ان کی وہ فلم تھی جس نے ہر طرف دھوم مچا دی اور بلراج ساہنی کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔

بلراج ساہنی نے اپنے وقت کی تمام معروف ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا جن میں پدمنی، نوتن، مینا کماری، وجنتی مالا اور نرگس شامل ہیں۔ ان کی مشہور ترین فلموں میں سٹہ بازار، ہم لوگ، بھابی کی چوڑیاں، کٹھ پتلی، لاجونتی، وقت، تلاش، ہلچل، ایک پھول دو مالی شامل ہیں۔ ان فلموں میں‌ بلراج ساہنی نے اپنے کرداروں میں‌ حقیقت کا ایسا رنگ بھرا کہ دیکھنے والے ششدر رہ گئے۔ غریب آدمی سے لے کر مجبور کسان اور بے بس مزدور تک انھوں نے غضب کی اداکاری کی۔ انھوں نے لگ بھگ 135 فلموں میں کام کیا۔

بلراج ساہنی بلاشبہ خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ وہ ادیب بھی تھے جنھوں نے انگریزی اور بعد میں پنجابی زبان میں ادب لکھا۔ وہ وسیع المطالعہ اور سیاسی و سماجی شعور سے مالا مال شخص تھے۔ انھوں نے اسکرین پلے رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور خود کو منوانے میں کام یاب رہے۔

Comments

- Advertisement -