تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا کا تذکرہ جو آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوگئی تھیں

’’بجیا‘‘ سب کے لیے محترم اور سب کی نظر میں‌ شفیق و مہربان ہستی تھیں۔ فاطمہ ثرّیا کے نام سے بجیا کا لفظ ایسا جڑا کہ ہر چھوٹا بڑا انھیں عزّت و احترام سے بجیا پکارتا تھا۔

وہ برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ تھیں‌۔ شائستہ آداب، نرم گفتار، منکسرُ المزاج، مہذّب اور مہربان بجیا کا تعلق بھی ہندوستان کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ بجیا نے 10 فروری 2016ء کو وفات پائی۔ آج ان کی برسی ہے۔

تہذیب و روایت کی روشن مثال، اردو ڈرامے کی آبرو، ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ 1948ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا۔ بجیا اور ان کے بہن بھائی پاکستان میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوئے اور خوب نام و مقام بنایا۔ انور مقصود، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق (زبیدہ آپا) سے کون واقف نہیں۔ بجیا انہی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ کبھی اسکول نہیں‌ گئیں اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں‌ کی، لیکن اردو زبان و ادب کو کہانی اور ڈراما نگاری کے ذریعے فاطمہ ثریا بجیا نے مشرقی تہذیب و اقدار کے حوالے سے عدیمُ النّظیر اور لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا۔

بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں‌ کو کردار سازی اور تربیت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہوئی۔

فاطمہ ثریا بجیا کے شہرۂ آفاق اور مقبول ترین ڈراموں میں ’شمع‘،’افشاں‘،’عروسہ‘ اور ’زینت‘ شامل ہیں۔ بجیا نے اپنی اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ماخوذ ڈرامے بھی تحریر کیے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ڈراموں کا جوہر تہذیب و تمدن کا درس تھا۔ 60ء اور70ء کی دہائی اور اس کے بعد بجیا کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’اساوری‘،’گھر ایک نگر‘، ’آگہی‘، ’انا‘، ’کرنیں‘،’بابر‘،’تصویرِ کائنات‘،’سسّی پنوں‘، ’انار کلی‘ اور بچوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔

ان کی سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔

حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

انھوں‌ نے کینسر کے موذی مرض کے باعث 86 سال کی عمر میں وفات پائی۔

Comments

- Advertisement -