فراق کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص انھوں نے فراق اپنایا اور آبائی علاقے کی نسبت تخلّص سے جڑی تو فراق گورکھپوری مشہور ہوئے۔ انھیں ایک عہد ساز شاعر اور اردو زبان و ادب کا بڑا نقّاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ فراق کی زندگی کا سفر 3 مارچ 1982ء کو تمام ہوگیا تھا۔
رگھو پتی سہائے نے 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں منشی گورکھ پرشاد کے گھر آنکھ کھولی جو شاعر تھے اور عبرت تخلّص کرتے تھے۔ وہ اردو اور فارسی کے عالم، ماہرِ قانون بھی تھے۔ انھوں نے گھر پر اپنے بیٹے کو ان زبانوں کی تعلیم دی اور بعد میں انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ فراق کو گھر میں علمی و ادبی ماحول ملا تھا جس میں وہ بھی شعروادب کی طرف متوجہ ہوگئے۔
انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد فراق نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ان کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی اور وہ اپنے وقت کے اہم شاعر اور نقّاد تھے۔
فراق اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔
ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔
فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔
بھارت میں فراق گورکھپوری کو پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا گیا تھا۔