گرو دت کو زندگی میں جو شہرت نہ مل سکی وہ موت کے بعد اس کا مقدر بنی۔ انھوں نے خود کشی کرلی تھی۔ 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح وہ اپنے بیڈ روم میں مردہ پائے گئے تھے۔
1970ء کی دہائی میں گرو دت کو جیسے نئی زندگی مل گئی۔ ان کی فلموں کا چرچا ہونے لگا اور 1980ء میں ایک فرانسیسی محقق نے کی گرو دت پر ریسرچ شایع ہوئی تو اسے دنیا بھر میں پہچان مل گئی۔ بعد کے برسوں میں گرودت کی فلمیں فرانس میں اور یورپ کے دیگر شہروں میں منعقدہ میلوں میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔
وہ ہندوستان کے نام وَر اور باکمال ہدایت کار، فلم ساز اور اداکار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو پیدا ہوئے۔
گرو دت بیس برس کی عمر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایت کاروں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی اوّلین تصور کی جانے والی فلم ’باز‘ سے پہلے تین فلمیں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ بھی کی تھیں۔
گرو دت کی بمبئی میں خود کشی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی تھی۔ دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس اور مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان جیسے فن کار خبر ملتے ہی سب کام چھوڑ کر بمبئی پہنچ گئے۔ فلم نگری کا ہر چھوٹا بڑا فن کار، آرٹسٹ غم زدہ تھا۔ وہ 39 سال کے تھے جب اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
1951ء میں فلم نگری نے کئی خوب صورت اور یادگار فلمیں ریلیز کی تھیں جن میں گرو دت کی فلم بازی بھی تھی جس نے اچھا خاصا بزنس کیا اور محض 25 برس کی عمر میں انھیں ایک باکمال ہدایت کار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ انھوں نے اپنی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور ایک باصلاحیت اداکار کے طور پر خود کو منوانے میں کام یاب رہے۔
اگلے سال انھوں نے فلم جال کی ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی منظرِ عام پر آئی، جس میں گرو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا تھا جو اس ہدایت کار کی ذاتی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا۔
1953ء میں گرو دت معروف سنگر گیتا دت سے شادی کرچکے تھے اور ان کے دو بیٹے بھی تھے، لیکن وحیدہ رحمان کی وجہ سے اس کی خانگی زندگی میں گویا زہر گھل گیا۔
گرو دت کی بیوی نے تنگ آکر الگ مکان لے لیا اور بچّوں کو لے کر وہاں چلی گئی۔ تب وحیدہ رحمان نے خود پر الزام آتا دیکھ کر گرو دت سے دوری اختیار کر لی اور یوں گرو دت بالکل تنہا رہ گئے۔
اسی زمانے میں گرو دت نے ایک فلم بنائی جو ناکام ہوگئی جس کا ہدایت کار کو شدید صدمہ ہوا۔ کہتے ہیں اس فلم کی ناکامی نے انھیں توڑ کر رکھ دیا۔
ایک روز انھوں نے وافر مقدار میں نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی ختم کر لی۔