پاکستان کے نام ور محقق، ادیب، تاریخ داں اور دانش وَر پیر حسام الدّین راشدی یکم اپریل 1982ء کو وفات پاگئے تھے۔ علم و ادب، تاریخ اور تحقیق کے میدان میں تنِ تنہا انھوں نے وہ کام انجام دیا جو کسی ادارے کے تحت ہی ممکن ہوسکتا تھا۔ سندھ کی تاریخ اور دیگر علمی و ادبی موضوعات پر ان کی کتب بیش بہا خزانہ ہیں۔
حسام الدّین راشدی کا تعلق سندھ کے ممتاز روحانی گھرانے سے تھا، وہ 20 ستمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے اور چوتھے درجے تک پڑھنے کے بعد مطالعہ کا شوق اپنایا اور کتب و جرائد سے اکتساب کیا۔ صحافت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ کئی اخبارات سے منسلک رہے، لیکن پھر علم و ادب، تاریخ کے موضوعات پر تحقیق اور جمع و تدوین میں مگن ہو گئے۔ انھوں نے کئی مخطوطات اور نایاب کتابوں کو اکٹھا کیا اور اپنے ذوق و شوق کی تسکین کے ساتھ فارسی مخطوطوں اور سندھ کی تاریخ کو مدوّن کرنے میں مشغول ہوگئے۔
ان کے حواشی کو معلومات اور تحقیق کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاسکتا ہے۔ مقالاتُ الشّعرا، تکملہ مقالاتُ الشعرا، تحفۃُ الکرام، مکلی نامہ اور مظہر شاہجہانی ان کی مدوّن کردہ وہ کتب ہیں جن پر ان کے حواشی سے تاریخِ سندھ کی کئی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد ملتی ہے۔ ان کی دیگر مختلف کتابوں میں روضۃُ السّلاطین و جواہر العجائب، دودِ چراغ محفل، تذکرہ شعرائے کشمیر، میر محمد معصوم بکھری، تذکرہ امیر خانی، حدیقۃُ الاولیا (تصحیح و حواشی)، تذکره مشاہیرِ سندھ ( مقدمہ و حواشی) شامل ہیں۔ پیر حسام الدّین راشدی کی تدفین مکلی کے تاریخی قبرستان میں کی گئی۔