تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

جمال احسانی: ایک منفرد غزل گو شاعر

جمال احسانی نے محبّت کرنے والوں کو ایک نیا راستہ یوں دکھایا تھا۔

یاد رکھنا ہی محبّت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

جذبات اور احساسات کی شدّت کے ساتھ اردو غزل کے روایتی موضوعات کو خوب صورت تشبیہات اور استعارے سے سجاتے ہوئے تازگی عطا کرنے والے ممتاز شاعر جمال احسانی کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 10 فروری 1998ء کو دارِ بقا کو لوٹ گئے تھے۔

جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا اور ان کا تخلّص جمال۔ شعروادب کی دنیا میں انھیں‌ جمال احسانی کے نام سے شہرت اور مقام بھی ملا۔ 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہونے والے جمال احسانی کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر پانی پت سے تھا جو تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل اور مشہور علاقہ ہے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازمت اختیار کرلی۔ اس وقت تک ان کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ صحافت بھی جمال احسانی کا ایک حوالہ ہے کیوں کہ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے۔ ان روزناموں‌ میں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

1970ء کی دہائی میں جمال احسانی نے اپنی تخلیقات کی وجہ سے پہچان حاصل کرنا شروع کی اور جلد ان کا شمار اہم غزل گو شعرا میں ہونے لگا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے:

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھیے:

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

Comments

- Advertisement -