تازہ ترین

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

اردو زبان کے مقبول شاعر محسن بھوپالی کی برسی

محسن بھوپالی نے اردو میں‌ رائج اصنافِ سخن کو ندرتِ خیال کے ساتھ اپنے اسلوب ہی سے نہیں سجایا بلکہ اسے ایک نئی صنف نظمانے بھی دی جسے ان کے ہم عصر شعرا اور نقّادوں نے بھی سراہا۔ وہ اردو کے مقبول شاعر تھے۔

آج محسن بھوپالی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 17 جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ وہ 1932ء میں بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگپور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کرلی۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

تعلیم کے ساتھ ان کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کا کلام مختلف ادبی جریدوں اور اخبارات میں‌ شایع ہونے لگا۔ کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں محسن بھوپالی نے شرکت کی اور اپنے کلام پر خوب داد پائی۔ انھوں نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

محسن بھوپالی کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

محسن بھوپالی کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

محسن بھوپالی کا یہ قطعہ ان کی پہچان بن گیا تھا۔

تلقین صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

ان کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہوا۔

غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

اردو کے اس مقبول شاعر کو کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -