اشتہار

پاکستان کے ممتاز سائنس داں رضی الدّین صدیقی کی برسی

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان کے معروف سائنس داں ڈاکٹر رضی الدّین کو ماہرِ‌ تعلیم اور ادبی شخصیت ہی نہیں ان کے عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے جینئس اور باکمال تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ایک وسیع المطالعہ، قابل اور ذہین انسان تھے جن کو اساتذہ نے بھی بہت عزّت اور احترام دیا اور ان کی علمی استعداد، قابلیت اور کردار کے معترف رہے۔ آج ڈاکٹر رضی الدّین کی برسی ہے۔

محمد رضی الدّین صدیقی نے ہندوستان میں مرفہ الحال ریاست حیدرآباد دکن میں 7 اپریل 1905ء کو آنکھ کھولی تھی۔ عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم حاصل کر کے دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

وہ طبیعیات اور ریاضی کے مضمون میں‌ بہت دل چسپی لیتے تھے اور بعد میں انھیں ایک ماہرِ طبیعیات اور ریاضی داں کی حیثیت سے شہرت ملی، لیکن لسانیات کے ساتھ ادب بھی ان کی دل چسپی کا مضمون رہا۔ انھوں نے عربی اور فارسی میں اقبالیات کے موضوع پر تحقیقی اور تخلیقی کام بھی کیا۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ایک ہی وقت میں کئی علوم میں درجۂ کمال پر فائز تھے۔

- Advertisement -

ڈاکٹر رضی الدّین کو کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ وہ داخلے کے امتحان میں اوّل آئے اور کیمبرج میں فزکس کے نوبل انعام یافتہ پال ڈیراک کے شاگردوں میں شامل رہے۔ انہی دنوں فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کے بھی شاگرد ہوئے اور انھوں‌ نے اپنے قابل طالبِ علم کی علمی میدان میں خوب راہ نمائی کی۔ کیمبرج سے ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی گئے اور اس زمانے میں آئن اسٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ سے بھی تعلیم حاصل کی۔

پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے مشورے پر ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ اپنے تحقیقی مقالے لکھے جو ممتاز جرائد میں شائع ہوئے۔ 1931ء میں وہ حیدرآباد دکن واپس لوٹے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔ 1950ء میں رضی الدّین صدیقی پاکستان آگئے۔

ایک قابل سائنس دان اور استاد ہونے کے علاوہ وہ انگریزی ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور اس کا مطالعہ کرنے کے ساتھ اردو اور فارسی ادب کو بھی خوب پڑھا، یہی نہیں بلکہ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ڈاکٹر صاحب اپنے دور میں‌ اقبال شناس کے طور پر بھی سامنے آئے اور ان کی دو تصانیف اقبال کا تصور زمان و مکان اور کلام اقبال میں موت و حیات بھی شایع ہوئیں۔ 1937ء میں کوانٹم مکینکس پر انھوں نے اپنے لیکچرز کو کتابی صورت میں شایع کروایا۔ اس کتاب میں نظریۂ اضافیت خصوصی اور جنرل تھیوری آف ہیملٹن ڈائنامکس پر بھی مضامین شامل تھے۔ اس کتاب کو ان کے اساتذہ نے بہت سراہا اور سائنس کے طلبا کے لیے مفید قرار دیا۔

حکومتِ پاکستان نے 1960ء میں رضی الدّین صدیقی کو ستارۂ امتیاز اور 1981ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ انھیں کئی ملکی اور غیرملکی جامعات نے بھی اعزازات دیے اور سائنس کے میدان میں‌ ان کے کام کو سراہا۔ ڈاکٹر صاحب متعدد جامعات اور تعلیمی اداروں میں مناصب پر فائز رہے۔ 2 جنوری 1998ء کو رضی الدّین صدیقی انتقال کرگئے تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں