آج شمسُ الدّین بلبل کا یومِ وفات ہے جن کے نام سے عام قارئین ہی نہیں، علم و ادب سے شغف رکھنے والے بھی بہت کم واقف ہوں گے۔ وہ سندھی زبان کے معروف شاعر، مصنّف اور مشہور صحافی تھے۔
سندھ کی کئی قابل، باصلاحیت اور جیّد شخصیات بات کی جائے تو ان میں چند ایسے نام شامل ہیں جن سے ہماری نئی نسل ناواقف ہے اور بدقسمتی سے ایسی نادرِ روزگار شخصیات کی حیات و خدمات اور ان کے علمی و ادبی کارناموں سے متعلق کوئی تحریر اور جامع مضمون بھی پڑھنے کو نہیں ملتا۔
شمسُ الدّین بلبل 21 فروری 1857ء کو سندھ کے ضلع دادو کے علاقے میہڑ میں پیدا ہوئے اور 1919ء میں آج ہی دن وفات پائی۔ انھوں نے اس دور کے دستور کے مطابق اردو فارسی اور عربی بھی سیکھی۔
شمسُ الدّین بلبل نے میہڑ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور 1889ء میں خان بہادر حسن علی آفندی کے پاس کراچی چلے آئے، جنھوں نے ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کی ادارت میں ایک ہفتہ وار اخبار معاون جا ری کیا۔ اس اخبار کی وساطت سے بلبل نے سندھ مدرسۃُ الاسلام اور سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کے لیے مؤثر خدمات انجام دیں اور حسن علی آفندی کے دست و بازو بن گئے۔ دکن ایگری کلچر ریلیف ایکٹ کے سلسلے میں انھوں نے حسن علی آفندی کی بڑی مدد کی، اس کے بعد ہی سندھ میں زمین داری بچاؤ کے لیے دکن ریلیف ایکٹ کا اطلاق ہوا۔
حسن علی آفندی کی وفات کے بعد بلبل کراچی چھوڑ کر اپنے آبائی قصبے میہڑ لوٹ آئے اور گھر سے اخبار کی ادارت اور تدوین کا کام انجام دینے لگے۔ بعد میں کراچی گزٹ کے ایڈیٹر ہوئے، جو ابتدا ہی میں بند ہو گیا۔ وہ لاڑکانہ کے اخبار خیر خواہ کے بھی مدیر رہے جب کہ روزنامہ الحقّ سکھر کی ادارت کے فرائض بھی سنبھالے۔ آخر میں مشہور روزنامہ آفتاب، سکھر کے مستقل ایڈیٹر بن گئے۔
ان کی تحریریں ظرافت آمیز اور پُرمذاق ہوتی تھیں، اور ان کے اس انداز نے ہر شخص ان کے مضامین کا مشتاق بنا دیا تھا۔ انھوں نے سندھی زبان کی بڑی اصلاح کی اور اپنے مضامین کے ساتھ دیگر تحریروں سے سندھی ادب میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔
1906ء میں انھوں نے میہڑ میں مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ان کی زندگی ہی میں اے وی اسکول کے درجے تک پہنچ چکا تھا۔ 1907ء میں جب آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا اور اس میں فارسی زبان کو سرکاری محکموں میں رائج کرنے کی قرارداد پیش ہوئی تو بلبل نے اس کی تائید میں تقریر کی جو فصاحت و بلاغت کا ایک بہترین نمونہ تھی۔ اس تقریر پر انھیں ہندوستان کے بڑے بڑے اکابرین نے سراہا اور نواب وقارُ الملک نے خاص طور پر داد دی اور تعریف کی۔
شمس الدّین بلبل شاعر بھی تھے، اور فارسی اور سندھی زبان میں ان کا کلام ملتا ہے، لیکن ان کی نثری تصانیف کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ سندھی، فارسی اور اردو پر عبور رکھتے تھے۔ مشاہیرِ سندھ کے نام سے کتب میں جہاں ان کا تذکرہ ملتا ہے، وہیں ان کی چند تصانیف کے نام بھی لکھے گئے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
بہارِ عشق کے نام سے دیوانِ بلبل (سندھی)، عقل اور تہذیب، مسلمان اور تعلیم، قرض جو مرض، صد پند سود مند، دیوان بلبل (فارسی)، آئینہ ظرافت
اور گنجِ معرفت۔