تازہ ترین

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

برصغیر کے نام وَر گلوکار طلعت محمود کی برسی

طلعت محمود کو بھارتی فلم انڈسٹری میں درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع ملا، لیکن شائقین نے انھیں سندِ قبولیت نہ بخشی، تاہم سُر، ساز اور آواز کی دنیا میں‌ انھیں وہ شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی جو بہت کم گلوکاروں کو نصیب ہوتی ہے۔ آج بھی ان کی آواز میں فلمی نغمات بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ طلعت محمود کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 9 مئی 1998ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

طلعت محمود 24 فروری 1924ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کی آواز بھی اچھی تھی اور وہ نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ طلعت محمود نے بھی چھوٹی عمر میں نعتیں پڑھنا شروع کردی تھیں۔ 1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا تھا۔

1944 میں ایک غیر فلمی گیت ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’ سے ان کی شہرت پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ وہ شکل و صورت کے اچھے تھے اور اسی لیے انھیں بطور ہیرو بھی فلموں میں سائن کیا گیا، لیکن ناکامی ہوئی۔ لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر وہ فلمیں ہیں جن میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

بھارت میں فلم انڈسٹری میں بہ حیثیت گلوکار ان کی شہرت کا آغاز آرزو نامی فلم کے گیت ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ سے ہوا۔ فلم داغ کے لیے انھوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت گائے اور اپنے فن کو منوایا۔

Comments

- Advertisement -