تازہ ترین

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

’’شام کی منڈیر‘‘ سے جھانکتی ڈاکٹر وزیر آغا کی یاد

اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا نے مختلف اصنافِ ادب کو انفرادیت بخشی، انھیں نیا آہنگ دیا اور توانا کیا۔ ادبی اور تنقیدی موضوعات کو نئے زاویے سے برتا اور کئی رجحانات متعارف کرائے۔ آج ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ 2010ء میں انتقال کرنے والے وزیر آغا کو جہانِ علم و ادب میں ایک نقّاد، انشائیہ نگار، محقّق اور شاعر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

ان کا تعلق سرگودھا سے تھا جہاں ڈاکٹر وزیر آغا نے 18 مئی 1922ء کو آنکھ کھولی تھی۔ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے کے فرد تھے۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی جب کہ پنجابی والدہ سے سیکھی۔ وزیر آغا نے گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ 1956ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی سند لی اور ادبی صحافت کے ساتھ تحقیقی اور تخلیقی کاموں‌ میں مشغول رہے۔

وہ 1960ء سے 1963ء تک مشہور جریدے ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے۔ انھوں نے 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو ڈاکٹر وزیر آغا جیسے قابل اور باصلاحیت قلم کار کی توجہ اور محنت کی بدولت معیاری اور مقبول جریدہ بنا۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے ادبی تحقیق اور تصنیف کی صورت میں اردو ادب کو کئی یادگار کتب دیں جن میں ان کے تنقیدی مضامین نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے شامل ہیں۔ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔

اردو ادب میں انشائیہ نگاری کو خاص اہمیت اور مقام دیا جاتا ہے اور یہ صنف بلندیٔ خیال، نکتہ آفرینی، اسلوب اور معیار کا تقاضا کرتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اس صنف کو خوب سنوارا اور لاجواب انشائیے تحریر کیے۔ انھوں نے انشائیے کی تعریف اور اس کے خدوخال پر بات کی۔ ان کے انشائیے اردو ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا شاعر بھی تھے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا کی خود نوشت سوانح عمری بھی لائقِ مطالعہ کتاب ہے جو ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ انھیں ان کے آبائی گاؤں کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -