کراچی: شہر قائد کے علاقے دہلی کالونی میں 160 گز پر بنی 12 منزلہ غیر قانونی عمارت گرانے کا عمل شروع کر دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی ميں سانحہ گلبہار کے بعد غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائیاں تیز ہو گئیں، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ نے دہلی کالونی میں بارہ منزلہ غیر قانونی رہایشی عمات کے خلاف ایکشن شروع کر دیا۔
12 منزلہ عمارت میں 24 فلیٹ اور 4 دکانیں قائم ہیں، تنگ گلیوں کے باعث آپریشن کرنے والی ٹیم کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے، عمارت کا ملبہ سامنے قائم رہایشی عمارت پر بھی گر رہا ہے، آپریشن کے دوران عمارت کی دونوں جانب گلیوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔
سی بی سی حکام کا کہنا ہے کہ آج 12 منزلہ عمارت کو مکمل طور پر گرا دیا جائے گا، تاہم 12 منزلہ عمارت کے دونوں جانب کوئی سپورٹ نہیں، عمارت کو مکمل توڑنے میں 2 دن لگ سکتے ہیں۔
آپریشن کے خلاف سیکڑوں کی تعداد میں لوگ بھی جمع ہو گئے، جس کی وجہ سے عمارت گرانے والی ٹیم کو سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا، مشتعل افراد سے نمٹنے کے لیے پولیس کی خصوصی ٹیم بھی موقع پر پہنچ گئی، جن سے ہاتھا پائی کے بعد ایس ایچ او کی طبیعت خراب ہو گئی۔ پولیس نے مزاحمت کرنے والے ایک شخص کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے نمایندے کے مطابق کارروائی میں حصہ لینے کے لیے ایس بی سی اے کی ٹیم نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، 160 گز پر بارہ منزلہ عمارت کیسے بن گئی، اس سوال کا جواب دیے بغیر عمارت گرانے کا عمل جاری ہے، کنٹونمنٹ بورڈ اور ضلعی انتظامیہ کے خلاف مکینوں نے احتجاج بھی کیا۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ذوالفقار خشک کا کہنا تھا عمارت بلڈنگ پلان کی منظوری کے بغیر تعمیر کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ تین دن قبل کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ نے مختلف علاقوں میں غیر قانونی عمارتوں کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ان میں دہلی کالونی، پی اینڈ ٹی کالونی، بخشاں ویلج اور گذری میں تعمیر عمارتیں شامل ہیں، کنٹونمنٹ بورڈ نے عمارتوں کو مسمار کرنے کا شیڈول بھی جاری کیا تھا۔ پی اینڈ ٹی کالونی میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن 17 مارچ کو ہوگا، گذری میں 16 مارچ، پنجاب کالونی میں 19، بخشاں ویلج میں 26 مارچ کو آپریشن ہوگا۔
یاد رہے کہ 27 فروری کو سندھ ہائی کورٹ میں غیر قانونی تعمیرات کیس کی سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر نے ریمارکس دیے تھے کہ کبوتر کے دڑبوں جیسے دہلی کالونی میں 11،11 منزل کی بلڈنگز بنی ہیں، یہ کیسے بن گئیں؟ سی بی سی نے عدالت کو بتایا کہ اس کی ذمہ داری سندھ حکومت پر ہے۔