تازہ ترین

اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم مقرر

وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کر دیا...

جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی...

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، صدر اسلامی ترقیاتی بینک کی ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوسرے...

وزیراعظم شہباز شریف آج ریاض میں مصروف دن گزاریں گے

وزیراعظم شہباز شریف جو کل سعودی عرب پہنچے ہیں...

مایوسی کے سمندر میں بہتے پاکستانی ڈپریشن کے خطرے سے دوچار

پاکستان میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نیشنل لائبریری آف میڈیسن (این آئی ایچ) کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے مریضوں کی شرح 22 سے 60 فی صد تک پہنچ گئی ہے، ڈپریشن میں مبتلا افراد کی تعداد بڑے شہروں خصوصاً کراچی میں 47 فی صد تک ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ذہنی امراض کی شرح اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو 2050 تک پاکستان ذہنی مسائل اور بیماریوں کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہوگا۔

ڈپریشن کیا ہے؟

ڈپریشن ایک ایسی مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، اس کیفیت کے شکار مریض وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف بہت حساس ہوتے ہیں بلکہ ان کی خواہشات اور توقعات کے بر خلاف چیزیں رونما ہوں تو وہ ان واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اس کیفیت میں اگر مریض کو مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض زندگی سے بے زاری اور نا امیدی کا شکار ہو کر آخر کار خود کشی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ذہنی مسائل کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، اس کے علاوہ معاشی تنگ دستی اور سماجی قدغن جیسے مسائل ان مریضوں کے لیے خطرناک ہو جاتے ہیں۔

تنگ دستی اور مایوسی

ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے پاکستان پچھلی کچھ دہائیوں سے کئی مسائل کا شکار ہوتا چلا آیا ہے، جس نے پاکستانیوں کی زندگی میں لاتعداد مسائل کو جنم دیا ہے، جس میں سب سے زیادہ بڑا مسئلہ معاشی تنگ دستی رہا ہے۔ جب انسان معاشی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف اس کی زندگی بلکہ پورے خاندان پر اس کے گہرے اثرات رونما ہو جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں مایوسی میں اضافے کا ایک سبب 2019 میں کرونا وائرس کی وبا بھی تھا، پاکستان کے مستقبل سے مایوسی نے بھی لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو سب سے زیادہ شکار بنایا ہے۔ ملک میں خود کشی کرنے والوں میں اکثریت نوجوان مرد و خواتین کی ہے۔ پاکستان میں نئی نسل میں اس مرض میں اضافے کا سب سے بڑا سبب معاشی و سماجی عدم تحفظ ہے، جس کی وجہ سے وہ جھنجھلاہٹ اور انتشار ذہنی کے شکار ہو رہے ہیں، اور آخر کار نفسیاتی طور پر ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پرتعیش زندگی گزارنے کی خواہش اور اس کی عدم تکمیل بھی مایوسی کے مرض کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی دسترس اور خبروں تک رسائی بھی پاکستانیوں کے نفسیاتی مسائل میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ڈپریشن سے نجات کا راستہ

ڈاکٹر اقبال ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کی بابت کہتے ہیں کہ لوگوں کو اپنا طرز زندگی یکسر بدلنا ہوگا، انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ قیمتی اشیا کے حصول کی کوشش ترک کر دیں، اور اپنی زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کریں، درپیش مسائل پر اپنے سنجیدہ حلقوں میں بات کریں۔

خاندان یا حلقہ احباب میں کسی شخص میں ڈپریشن کی علامات محسوس کریں تو اس کی کونسلنگ کریں۔ اس کے علاوہ ڈپریشن کا مریض اپنی زندگی کے روزمرہ کے معاملات میں مثبت سوچ، چہل قدمی، ورزش اور خوراک کے معتدل استعمال سے بھی اس مرض سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہفتے میں تین مرتبہ ورزش کرنے سے ڈپریشن کے عارضے میں 16 فی صد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

خود کشی اور نوجوان

اگرچہ ڈپریشن کا مرض ہر عمر کے افراد میں نوٹ کیا گیا ہے مگر عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق 2011 کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار سے 2 لاکھ 70 ہزار افراد سالانہ خود کشی کی کوشش کرتے ہیں، جس میں اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

بڑے شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کے بڑھنے میں آبادی کے پھیلاؤ اور پر تعیش لائف اسٹائل کو اختیار کرنے کا جنون شامل ہے، پرتعیش طرز زندگی کی دوڑ میں ہر کوئی جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ کما کر ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے، اور اس سلسلے میں اچھائی اور برائی میں تمیز بھی بھولتا جا رہا ہے، جس کے باعث سماجی نظام زوال کا شکار ہے۔

رشتوں میں فاصلہ

ڈپریشن کے مرض میں کئی دیگر عوامل بھی شامل ہیں، جن میں فیملی کے افراد کے درمیان رشتوں میں فاصلہ، عدم برداشت اور تناؤ جیسے عوامل قابل ذکر ہیں، پاکستان میں یورپ کی طرز پر لاتعداد اولڈ ایج ہاؤسز کا کھلنا اس کی ایک زندہ مثال ہے۔

ڈیجیٹل اور الیکٹرانک آلات کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں جو انقلاب آیا ہے اس کے فوائد کے ساتھ شدید نقصانات بھی سامنے آئے ہیں،

والدین اور بچوں میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں، نہ تو والدین بچوں کے رجحانات کو دیکھ کر خود کو بدلنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی اولاد ان کے پرانے طور طریقوں اور روایات کو قبول کرنا چاہتی ہے۔

سوشل میڈیا نے گزشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی میں ہماری سماجی زندگی کو اپنی آہنی پنجوں میں جکڑ لیا ہے، اسمارٹ فونز کی آمد کے بعد سوشل میڈیا کا استعمال پاکستان میں بھی تیزی سے بڑھتا گیا اور فی الوقت پاکستان اسمارٹ فونز در آمد کرنے والے صف اول کے ممالک میں سے ایک ہے۔

Comments

- Advertisement -