تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ارشد شریف کو کس نے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا اور رابطے میں رہنے والے لوگ کون تھے ؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوالات اٹھادیئے

راولپنڈی : ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل بابرافتخار نے شہید صحافی ارشد شریف کی تعریف کرتے ہوئے کہا سوالات اٹھائے ارشد شریف کو کس نے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا ؟ ان سے رابطے میں رہنے والے لوگ کون تھے ؟۔

تفصیلات کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد سینئر اور ممتازارشدشریف سے متعلق ہے، حقائق کا صحیح ادراک انتہائی ضروری ہے ، پریس کانفرنس کی حساسیت کی وجہ سے وزیراعظم کو پیشگی آگاہ کیا گیا۔

ارشد شریف کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ شہید ارشد شریف کے لواحقین کیساتھ برابر کے شریک ہیں لیکن عوامل کا احاطہ کرناضروری ہے، جن کےتحت مخصوص بیانیہ بنایا اور لوگوں کو گمراہ کیا گیا، اداروں اور ان کی لیڈر شپ یہاں تک آرمی چیف پر بھی بے جا تنقید کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی وفات انتہائی اندوہناک واقع ہے، تکلیف کی گھڑی میں ہم سب ارشد شریف کی فیملی کیساتھ ہیں ، ارشد شریف پاکستان کےآئیکون تھے، ارشد شریف ایک فوجی کے بیٹے اور بھائی تھے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف صاحب کےپروگرام صحافتی دنیا میں یادگار رہیں گے، ان کی وجہ شہرت تحقیقاتی صحافت تھی۔

ارشدشریف کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخارنے بتایا کہ دیکھنا ہوگا مرحوم ارشدشریف کے حوالے سے سامنے آنے والے حقائق کیا ہیں، 5 اگست کو کے پی حکومت کی جانب سے ارشد شریف کے حوالے سےتھریٹ الرٹ جاری کیا گیا، ہماری اطلاع کےمطابق یہ تھریٹ چیف منسٹر کے پی کی جانب سے دائر کیا گیا، ارشد شریف سے متعلق تھریٹ وزیراعلیٰ کے پی کی خاص ہدایت پر جاری کیا گیا۔

پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ ارشدشریف کےافسوسناک واقعے کی شفاف تحقیقات کی بہت ضرورت ہے، دیکھنا ہوگا وقار احمد اور خرم احمد کون تھےکیاارشدشریف انہیں جانتےتھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے ارشد شریف سےلندن میں ملاقات کے دعوے کیے، کیایہ دعوےبھی فیک نیوزاورڈس انفارمیشن کاحصہ تھے، کینیاپولیس اورحکومت نےاس کیس میں اپنی غلطی تسلیم کی ہے لیکن بہت سےسوالات جواب طلب ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس افسوسناک واقع کی صاف شفاف تحقیقات بہت ضروری ہے، اس کمیشن کوبین الاقوامی ایکسپرٹس اورنمائندوں کی ضرورت ہےتوانہیں بھی شامل کیاگیا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل بابرافتخار نے سوالات اٹھائیے ارشد شریف کو کس نے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا ؟ ان سے رابطے میں رہنے والے لوگ کون تھے ؟ان کے قیام و طعام کا انتظام کون کر رہا تھا؟ کس نے انہیں کینیا جانے کا کہا؟ وقار احمد اور خرم احمد کون تھے ؟کیا ارشد شریف انہیں جانتے تھے؟ بہت سے جواب طلب سوالات کی تحقیقات ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے آرمی چیف پر الزامات لگائے گئے، چھوٹے بیانیے سے اضطراب پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ، ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے، سیکیورٹی تھریٹ وزیراعلی خیبرپختونخواہ کی خصوصی ہدایت پر جاری کیا گیا، مقصد ارشد شریف کو باہر جانے پر مجبور کرنا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ارشدشریف کی وفات افسوسناک واقعہ ہے جو قوم کورنج وغم میں مبتلا کر دیا، ہم سب کوانکوائری کمیشن کی رپورٹ کاانتظارکرناچاہئے، ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں تو ہم ان کو اپنے خون سے دھو رہےہیں۔

ارشد شریف سے متعلق صحافی کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ کے پی حکومت نے تھریٹ جاری کیا جس کا ہمیں معلوم نہیں تھا، ہمیں اس تھریٹ کی تفصیلات سےمتعلق کوئی اطلاعا ت نہیں تھیں۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ میں کل والی پریس کانفرنس پرکمنٹ نہیں کرسکتا، جوانکوائری کمیشن بناہےوہ ان تمام شواہدکودیکھےگا، اس لئےکہاہےکہ غیرجانبداراورشفاف تحقیقات ہوں، یہ کیس اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچا تو بہت نقصان ہوگا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ارشد شریف پرتحقیقات ہورہی ہیں، جب تک تحقیقات منطقی انجام تک نہیں پہنچےکوئی بات نہ کی جائے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ کچھ دن قبل ایک کانفرنس میں اداروں کیخلاف غلط نعرے،زبان استعمال کی گئی، اس کی مذمت وزیراعظم ،وزیر قانون ،وزیر خارجہ اورسابقہ صدرنےبھی کی، میں یہ نہیں کہوں گاکہ حکومت دانستہ خاموش ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ارشدشریف مجھ سے اورادارے کےلوگوں سے رابطے میں تھے ، ارشدشریف نے کبھی تھریٹ سے متعلق ذکر نہیں کیا، ارشد شریف کا ادارے کےساتھ بہت خاص تعلق تھا ، ارشد شریف نے جو ادارے، شہدا کیلئے جو پروگرام کئے وہ ہمارے اوپر قرض ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایسی کوئی انفارمیشن نہیں تھی کہ ارشدشریف کی جان کوپاکستان میں خطرہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے صحافی بہت مشکل اور خطرات کے باوجود بہت اچھا کام انجام دےرہےہیں، اس نظریے کے خلاف اورمذمت کرتاہوں جو کہتے ہیں کہ صحافی لفافے لیتے ہیں ، کوئی ایسا نہیں جس کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی صحافی لفافہ کہہ سکوں

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ تفتیش کیلئےکمیشن کوادارےکی مددکی ضرورت پڑی توہرممکن تعاون کرینگے، انکوائری کمیشن نے فیصلہ کرنا ہے کس کس کو شامل تفتیش کرناہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہمیں انکوائری کمیشن کی تحقیقات کاانتظارکرناہے، میرایاآپ کاحق نہیں بنتاکہ کس نے قتل کرایا، میں نےجوچیزیں سامنےرکھیں وہ رائےنہیں وہ فیکٹ بیسڈہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اداروں پرانگلیاں اٹھ رہی تھیں مفروضات کوشکل دی جارہی تھی، جس سے خدشہ تھاکہ انکوائری پربھی اثراندازہوسکتے ہیں، جو جو لوگ اس میں ملوث تھے انہیں شامل تفتیش کرناچاہئے۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ جو انفارمیشن ابھی اس فام میں نہیں کہ سب کے سامنے رکھا جائے گا اور مکمل طورپرانکوائری کے بعد فیکٹس کو سامنےلایاجائےگا۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ راناثنااللہ نےجوبات کی اس پر کمنٹ نہیں کرسکتا، انکوائری کمیٹی پر سوال بعد میں اٹھا ہم نے اپنے ممبراس میں سے نکال لیے تھے، سوال اٹھا جن پرانگلیاں اٹھ رہی ہیں انہیں کے لوگ انکوائری کمیٹی میں ہیں، اس کی وجہ یہی تھی کہ ہم انکوائری کمیٹی کو غیرجانبدار اورشفاف بنانا چاہتےہیں، ارشدشریف معاملے پر تیسری قوت یا دشمن عناصر کا ہاتھ نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔

Comments

- Advertisement -