تازہ ترین

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ذیابیطس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ پاکستانی محقق کا بڑا کارنامہ

کراچی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محقق اور ڈاکٹر محمد تنویر خان نے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ پیٹ کے جراثیم سے ذیابیطس کو لاحق ہونے سے روکنا ممکن ہے۔

کراچی یونیورسٹی سے مائیکرو بیالوجی میں ماسٹرز اور پھر نیدرلینڈز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر محمد تنویر خان اس وقت سوئیڈن کی گوتھن برگ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور مالیکیولر اور کلینیکل میڈیسنز کے شعبے میں سنگ میل ثابت ہونے والی ریسرچ کر رہے ہیں۔

معروف سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں اس موضوع پر شائع ہونے والے تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر محمد تنویر خان بتایا کہ آنتوں میں رہنے والے جراثیم ہماری صحت پر مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

diabetes

پاکستانی محقق ڈاکٹر محمد تنویر خان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ خوشی، غم، اسٹریس، بھوک اور ایسے دیگر عوامل ان ہی جراثیم سے جڑے ہوتے ہیں۔

سائنسی جریدے ‘نیچر‘ میں شائع ہونے والی ان کی نئی تحقیق کے نتائج پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق پیٹ کے ان جراثیموں میں واقع ہونے والی تبدیلیاں نہ صرف بہت سی بیماریوں کی پیشگی اطلاع دے سکتی ہیں بلکہ ان کی شدت اور ادویات کے اثرات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

Dr. Muhammad Tanvir Khan

ڈاکٹر محمد تنویر خان تحقیقی رپورٹ میں خاص طور پر ذیابیطس کے مرض پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے، تاہم وہ کہتے ہیں کہ دل کی بیماریاں بھی ان ہی جراثیم کی انسانی جسم میں تعداد سے جڑی ہوتی ہیں۔

تحقیقی مقالے کے مطابق پیٹ میں ان جراثیم سے جڑی تبدیلوں کا سراغ لگانے کے لیے جینوم سیکوئنسنگ (میٹا جینوم) کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر تنویر خان کے مطابق آنتوں میں رہنے والے جراثیم کی تعداد ہمارے جسم کے خلیوں کی مجموعی تعداد سے بھی دس گنا زیادہ ہوتی ہے جبکہ ان میں موجود جینز کی تعداد تقریباً سوگنا زیادہ ہے۔

ڈاکٹر تنویر خان نے مزید بتایا کہ ایک عام انسان دن میں تقریباً آدھا کلو فضلہ خارج کرتا ہے، جس کا نصف وزن ان ہی جراثیم پر مشتمل ہوتا ہے، یہ جراثیم انتہائی حساس ہوتے ہیں اور اکثر ہوا کے ساتھ رابطے میں آنے کے چند لمحوں میں ہی مرجاتے ہیں۔

جراثیم

ڈاکٹر تنویر کے مطابق آنتوں کی توانائی کا 60 فیصد بشمول وٹامنز، ہارمونز اور دیگر کیمیائی اجزاء ان ہی جراثیم سے حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی مریض پر اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے تو اچھے جراثیم (جو ہمیں وٹامنز فراہم کرتے ہیں) مرجاتے ہیں اور اسی لیے وٹامنز کی گولیاں بھی تجویز کی جاتی ہیں۔

پاکستانی ریسرچر کا کہنا ہے کہ پری بائیوٹک نامی یہ گولیاں اصل میں وہ فائبر ہوتے ہیں جو انسان ہضم نہیں کرتا بلکہ یہ انسانی جسم میں رہ کر اچھے جراثیموں کی تعداد بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ذیابیطس سے قبل کچھ خاص قسم کے جراثیم جسم میں کم یا ختم ہوجاتے ہیں۔ اس تحقیق سے قبل تک ان جراثیم کو محفوظ بنا کر کسی دوا کی شکل نہیں دی جا سکی تھی۔

ڈاکٹر تنویر خان کی ٹیم نے ان جراثیم کو پیدا کرنے اور محفوظ بنانے کا طریقہ وضع کیا ہے۔ اس پاکستانی ریسرچر کے مطابق یہ طریقہ ابھی پچاس افراد پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ اب یہ تحقیق انسانوں کے ایک بڑے گروپ پر استعمال کی جا رہی ہے اور اس کے نتائج بھی جلد ہی شائع کیے جائیں گے۔

Comments

- Advertisement -