تازہ ترین

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

جب ‘فلپ کمار’ کی دیوانی اینا ممبئی پہنچی!

مجھے یاد ہے کہ ایک دن آسٹریلیا سے نریش نام کے ایک آدمی کا میرے پاس فون آیا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ میرے من میں لڈو پھوٹنے لگے۔

میں نے سوچا کہ کوئی NRI ہے جو مجھ سے فلم بنوانا چاہتا ہے۔ وہ کم بخت جب تک نہیں ملا میں نئے نئے خواب بُنتا رہا۔ آخر خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں اور وہ ایک دن ایک دو تحفے لے کر میرے دفتر میں حاضر ہوا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بہت دیر تک دھڑکتا رہا۔ سوچا پتا نہیں کہ کیا مژدہ سنانے والا ہے۔ جب کفر ٹوٹا تو میں ٹھس سے نیچے بیٹھ گیا۔ پتا چلا کہ آسٹریلیا کی ایک خاتون ہے جو دلیپ صاحب کی زبردست فین ہے اور ایک بار دلیپ صاحب کا دیدار کرنا چاہتی ہے۔

کچھ دیر تک میں آنا کانی کرتا رہا۔ جب اس نے میرا پیچھا نہ چھوڑا تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مجھے ہامی بھرنی پڑی۔ وہ اگلے دن اس خاتون کے ہمراہ آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا۔ سوچا یہ خاتون کون ہے۔ کیا سائرہ جی کے ہوتے ہوئے اس کی ملاقات دلیپ صاحب سے ممکن ہے۔ میں رات بھر اسی ادھیڑ بن میں پڑا کروٹیں بدلتا رہا۔

اگلے روز جب میں آفس میں پہنچا تو ایک عمر رسیدہ، پر بے حد خوب صورت خاتون کو دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا۔ مجھے لگا کہ میں نے اپنی رسوائی کا سامان خود ہی کر لیا ہے۔ میں بڑا حساس اور جذباتی آدمی ہوں۔ چہرے سے آدمی کے دل کی بات پڑھ سکتا ہوں۔ ایک عورت اتنی دور سے چل کر آئی تھی۔ انسانیت کے ناتے میرا یہ فرض بنتا تھا کہ میں اس کے ساتھ پیار سے پیش آؤں۔

نریش نے جب اس خاتون سے میرا تعارف کرایا تو میں اسے ازراہِ مروّت آفس میں لے آیا۔ چائے، شربت سے اس کی خاطر تواضع کی۔ بہت جلد وہ مجھ سے گھل مل گئی۔ پتا چلا کہ وہ ایک آرمینین خاتون ہے۔ ایک بار اس نے محبوب خان کی فلم "آن” دیکھی۔ یہ فلم آرمینی زبان میں ڈب ہوئی تھی۔ اس زبان میں اس کا ٹائٹل "منگلا” رکھا گیا تھا۔ (فلم میں نمی کا نام منگلا تھا) کاسٹنگ میں دلیپ کمار کا نام فلپ کمار لکھا گیا تھا۔ اینا (یہ اس خاتون کا نام تھا) نے جب یہ فلم دیکھی تو دلیپ کمار پر فدا ہو گئی۔

ان دنوں وہ ایک دم جوان تھی، خوب صورت تھی۔ وہ اپنے خوابوں کے شہزادے فلپ کمار کی تلاش میں بمبئی چلی آئی۔ لوگوں سے پوچھا۔ اسٹوڈیو کے چکر لگائے مگر اسے اپنے خوابوں کا شہزادہ فلپ کمار کہیں نہیں ملا۔ وہ اگر فلم کا اصلی نام بھی جانتی تو اس کی مشکل آسان ہو سکتی تھی مگر نام میں بھی لوچا تھا۔ یہاں نہ کوئی فلپ کمار کو جانتا تھا اور نہ ہی کسی نے "منگلا” فلم کے بارے میں سنا تھا۔ (وہ منگلا بھی صحیح ڈھنگ سے بول نہیں پا رہی تھی منگلا کو منگالا کہتی تھی) آخر ایک مہینے تک ممبئی کی خاک چھاننے کے بعد جب کچھ بھی اس کے ہاتھ نہ آیا تو وہ مایوس و نامراد اپنے وطن واپس لوٹ گئی۔

اس بیچ اس کی شادی ہوئی۔ اس نے پہلی ہی رات کو اپنے شوہر کو صاف لفظوں میں بتا دیا کہ وہ فلپ کمار سے جنون کی حد تک پیار کرتی ہے۔ وہ بھلے ہی اس کی بیوی بن چکی ہے پر وہ یہی تصور کرے گی کہ وہ جسمانی اور روحانی طور پر اسی کے ساتھ ہے جسے وہ دیوانگی کی حد تک چاہتی ہے۔ اس کا شوہر بھی بڑا دل دار اور وسیع القلب تھا۔ اس نے اس کے جذبات کو سراہا اور کوئی ایسی بات نہ کی جس سے اس کے دل کو ٹھیس پہنچے۔

اسی بیچ اینا آسٹریلیا آگئی۔ ایک دن وہ ایسے ہی گھومتے گھماتے نریش کی دکان کے پاس آ کے رک گئی جہاں ہندی فلموں کے کیسٹ ملتے تھے۔ اینا نے اس سے فلم "منگالا” کا کیسٹ مانگا۔ نریش نے اپنے رجسٹر کو خوب کھنگالا مگر "منگلا” نام کی کوئی فلم اس پورے رجسٹر میں کہیں دکھائی نہ دی۔ دل برداشتہ ہو کر وہ ایک ایک کیسٹ بیٹھ کر دیکھنے لگی۔ اچانک اس کی خوشی اور حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا جب اس کے ہاتھ "آن” کا کیسٹ لگا۔ وہ دیوانہ وار اس کیسٹ کو چومنے لگی۔ خوشی کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ اس فلم کے پیچھے اس نے کس قدر خاک چھانی تھی اس نے نریش کو اپنے دل کی کیفیت سے آشنا کر دیا اور اس نے یہ وعدہ لیا کہ وہ اسے انڈیا لے جا کر دلیپ کمار سے ایک بار ملا دے گا۔

نریش نے فلم ڈائریکٹری سے میرے آفس کا نمبر ڈھونڈ نکالا تھا، اس طرح نریش نے مجھ سے رابطہ قائم کیا تھا اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

یہ اپنی نوعیت کی ایک انوکھی لو اسٹوری تھی اور اس لو اسٹوری کے ٹوٹے تار کو جوڑنے کا ذمہ مجھے سونپا جارہا تھا۔ میں محبت کرنے والوں کا امین ہوں، پر یہ جو عشقیہ داستان تھی اس میں ملن کم اور جوکھم زیادہ نظر آرہا تھا۔ میں کیا کروں مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک طرف اینا کی تڑپ اور دوسری طرف میری مجبوریاں۔ یہ تو ایک آگ کا دریا تھا جسے پار کرنا اتنا آسان نہ تھا۔

اینا بھی اب کے طے کرکے آئی تھی کہ وہ دلیپ کمار سے مل کے ہی جائے گی چاہے دنیا اِدھر ادھر ہو جائے۔ میں نے اینا سے دو دن کی مہلت مانگی۔ وہ خوشی خوشی نریش کے ساتھ چلی گئی مگر میں اضطراب اور تذبذب کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگا۔

میں اسی دن شام کے وقت صاحب سے ملنے سائرہ جی کے بنگلے پر چلا گیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں اصلی مدعے پر آگیا۔ میں نے دلیپ کمار صاحب سے کہا کہ ایک خاتون آسٹریلیا سے خاص طور پر ان سے ملنے چلی آئی ہے۔ اسے صرف پانچ منٹ چاہییں۔ وہ بس ان سے مل کر چلی جائے گی۔ دلیپ صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ ان کی یہ پراسرار خاموشی میرے لیے سوہان روح بنتی جا رہی تھی۔ وہ بہت دیر تک خاموش رہے۔ میں نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔ وہ میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھ کر بولے: "کیوں مجھے آپ مشکل میں ڈالنا چاہتے ہو؟”

میں نے انہیں یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ خاتون پانچ منٹ مل کر چلی جائے گی۔ کافی سوچ بچار کے بعد آخر کار انہوں نے ملنے کے لیے ہامی بھرلی۔ میں نے اسی وقت نریش کو فون کرکے اطلاع دی۔

اگلے دن ہم بغل کی بلڈنگ میں شوٹنگ کر رہے تھے کہ ایک نوکر میرے پاس یہ خبر لے آیا کہ اینا، نریش کے ساتھ نیچے کھڑی ہے۔ پتا نہیں اینا کے نام سے مجھ پر لرزہ کیوں طاری ہوگیا۔ میں سوچنے لگا کہ اینا پاگل پن کی حد تک دلیپ صاحب کو چاہتی ہے۔ اگر اس نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔

میں کیا کروں مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ میری حالت تو اس سانپ سے بدتر تھی جس کے منہ میں چھچھوندر ہو۔ جسے وہ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی۔ میں عجیب مشکل سے دوچار تھا۔ نہ ہی میں سامنے آنے کی حالت میں تھا اور نہ ہی پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں۔ آگے پیچھے کے راستے مجھے مسدود نظر آرہے تھے۔ میں نے کافی سوچ بچار کے بعد ان کے گھر کے ہی ایک آدمی کو اعتماد میں لیا اور اس کے ساتھ نریش اور اینا کو روانہ کر دیا۔

جونہی دلیپ صاحب اینا سے ملنے نیچے اتر آئے تو میں اپنے دل کو تھام کر ایک کونے میں چھپ کر کھڑا رہا۔ وہ آدھے گھنٹے تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اینا نے اپنے محبوب کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ جب تک دلیپ صاحب کے پاس بیٹھی رہی بہت ہی ڈھنگ اور قاعدے سے بیٹھی رہی۔ اس میٹنگ کے دوران سائرہ جی برابر موجود رہیں، مگر اینا نے کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی، جس کا مجھے اندیشہ تھا۔

خدا خدا کر کے یہ میٹنگ آدھے پونے گھنٹے کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ اینا کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور میری بات بھی رہ گئی۔ سب سے خوش کن بات یہ تھی کہ ہم سب کی عزّت سلامت رہی۔

(ہندوستانی ہدایت کار اور ادیب دیپک کنول کی کتاب ‘دلیپ صاحب’ سے)

Comments

- Advertisement -