سنہ 1976 میں ایبولا وائرس کو دریافت کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نئے وائرسز انسانیت کو اپنا نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں اور یہ ممکنہ طور پر کووڈ 19 سے کہیں زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر جین جیکس نے سنہ 1976 میں ایک پراسرار قسم کی بیماری کا شکار ہوجانے والے اولین افراد کے خون کے نمونے لیے تھے، اس بیماری کو بعد ازاں ایبولا وائرس کا نام دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دنیا لاتعداد وائرس کے نشانے پر ہے، افریقہ کے جنگلات سے نئے اور ممکنہ طور پر جان لیوا وائرسز ظاہر ہوسکتے ہیں اور یہ وائرس کووڈ 19 سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
ادھر عوامی جمہوریہ کانگو میں ایک شخص کے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، ایک نئے قسم کے بخار کا شکار ہونے کی خبریں زیر گردش ہیں، ڈاکٹرز کے مطابق اس شخص کا ایبولا وائرس کا ٹیسٹ کیا گیا جو منفی آیا، جس کے بعد ڈاکٹرز نے اس پراسرار بیماری کو ڈیزیز ایکس کا نام دیا گیا جس کا مطلب کسی غیر متوقع بیماری کے ہیں۔
ڈاکٹر جین کا کہنا ہے کہ ایسے لاتعداد وائرسز ہوسکتے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتے ہیں اور ان کی ہولناکی کہیں زیادہ ہوگی۔
دنیا ابھی تک کئی ایسی بیماریوں سے واقف ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوجاتی ہیں، جیسے زرد بخار، ریبیز، انفلوئنزا وغیرہ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں بیماریاں منتقل ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی قدرتی پناہ گاہوں یعنی جنگلات کا تیزی سے ختم ہونا اور ان کی تجارت ہے۔
ماہرین کے مطابق جنگلات ختم ہونے سے بڑے جانوروں کو معدومی کا خدشہ ہوتا ہے تاہم چھوٹے جانور جیسے چوہا، چمگاڈر یا کیڑے مکوڑے سروائیو کر جاتے ہیں اور یہی وائرسز کو منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔