تازہ ترین

کھلونے بھی دل بہلانے میں ناکام، زلزلہ متاثرہ شامی بچی والدین کی راہ تک رہی ہے

شام میں زلزلے کے ملبے سے زندہ نکالی جانیوالی بچی اسپتال میں زیر علاج، دل بہلانے کیلیے کمرے میں کھلونے اور غبارے بھی مگر وہ اپنے والدین کی منتظر ہے۔

ترکیہ اور شام میں 6 فروری کو آنے والے ہولناک زلزلے کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ ملبے سے کئی افراد کو زندہ بھی نکالا گیا ہے مگر ہر ایک اپنی المناک داستان رکھتا ہے۔ شام میں بھی زلزلے سے متاثرہ بچی ’’ہنا‘‘ کو ملبے سے نکال کر اسپتال میں علاج کی غرض سے رکھا گیا ہے۔ بچی کا دل بہلتے رہے اس لیے اس کے کمرے کو گڑیوں، غباروں سے سجایا گیا ہے مگر یہ کھلونے بھی اس کا دل بہلانے اور دکھ کا مداوا کرنے میں ناکام ہیں اور وہ ہر روز اسپتال انتظامیہ سے اپنے والدین اور بہن کے بارے میں سوال کرتی ہے۔

ہنا روز پوچھتی ہے کہ اس کے والدین اور بہن کہاں ہے، وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ زلزلہ اس کے تمام پیاروں کو اس سے چھین کر لے گیا ہے اور اب وہ اس دنیا میں تنہا رہ گئی ہے۔

ہنا کے چچا عبداللہ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ بچی روزانہ اپنے والدین کے بارے میں سوال کرتی ہے اور ہم روز اسے یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ اس کے ماں باپ اور بہن بھی اسی اسپتال کے دوسرے وارڈ میں زیر علاج ہیں۔ ہماری ہمت نہیں کہ اسے بتائیں کہ اس کے والدین اور بہن اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

یاد رہے کہ ریسکیو ٹیموں نے 8 سالہ ھنا کو زلزلے کے 33 گھنٹے بعد منہدم ہونے والے گھر کے ملبے سے نکالا تھا۔ اس کا تعلق ترکہ کی سرحد کے قریب واقع ادلب کمشنری کے حارم قصبے سے ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے بچی کو انتہائی تشویشناک حالت میں اسپتال لایا گیا تھا تاہم اب اس کی حالت قدرے بہتر ہے لیکن ہاتھ اب بھی شدید زخمی ہے جس کو کاٹنا پڑ سکتا ہے۔

شامی میڈیا کے مطابق 6 فروری کو شام اور ترکیہ میں آنے والے زلزلے نے بے شمار بچوں کو یتیم کردیا ہے اور ایسے سیکڑوں خاندان ہیں جن میں بڑے لقمہ اجل بن گئے اور صرف بچے زندہ بچے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے 6 فروری کی علی الصباح ترکیہ اور شام میں آنے والے 7.8 کے زلزلے سے دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ اموات کی تعداد 42 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ زخمیوں کی تعداد بھی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے۔ صرف ترکیہ کے 10 شہر اور اس میں 6 ہزار سے زائد عمارتیں چند سیکنڈوں میں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں اور اب بھی لوگوں کی بڑی تعداد ملبے تلے دبی ہوئی ہے۔

Comments

- Advertisement -