تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

سری لنکا کے عوام شدید ذہنی اذیت میں مبتلا، معاشی بحران سنگین ہوگیا

کولمبو : سری لنکا میں معیشت کی تباہی کے بعد ملک میں نفسا نفسی کا عالم ہے بھوک اور بنیادی ضروریات سے محرومی کے باعث عوام شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سری لنکا میں معاشی بحران سنگینی کی آخری حدوں کو چُھو رہا ہے اور اس وقت اس ملک کا زیادہ تر انحصار بھارت اور دیگر ممالک کی امداد پر ہے۔

دوسری جانب سری لنکا کی حکومت انتہائی بے چینی سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے مذاکرات کررہی ہے۔

اس جنوبی ایشیائی جزیرہ نما ملک کی آبادی دو کروڑ20 لاکھ ہے لیکن وہاں کی اکثریت اس وقت خوراک، ایندھن سمیت زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے مشکلات کا شکار ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سنگین معاشی بحران نے سری لنکا میں افراتفری اور تشدد کو جنم دیا ہے، لوگ بنیادی استعمال کی اشیاء کے حصول کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں اور وہ شدید مایوس ہیں۔

سری لنکا کے گامپاہا قصبے کی رہائشی دوبچوں کی ماں47 سالہ شامیلا نیلانتھی کو مٹی کا تیل حاصل کرنے کے مسلسل تین روز تک قطار میں کھڑا ہونا پڑا لیکن انہیں بالآخر خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑا۔ ان کے ساتھ ایسا ہی واقعہ دو ہفتے قبل پیش آیا تھا۔

شامیلا نیلانتھی کہتی ہیں میں مکمل طور اکتا گئی ہوں، تھکن سے چور ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمیں کب تک یہ سب کچھ کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ چند برس قبل تک سری لنکا کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی اور وہاں کی آبادی کے لیے نوکریوں اور خوراک کا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اب یہ تباہی کے دہانے پر ہے۔

سینٹر فارگلوبل ڈویلپمنٹ واشنگٹن کے سینیئر فیلو سکاٹ مورس کا کہنا ہے کہ صورت حال بہتر تیزی سے انسانی بحران کی جانب بڑھ رہی ہے۔

اس طرح کے معاشی بحران عموماً افغانستان جیسے غریب ترین ممالک میں تو دیکھے گئے ہیں لیکن سری لنکا جیسے متوسط آمدنی والے ممالک میں ایسی صورت حال نادر ہے۔

Sri Lanka's Food Crisis Is the Government's Doing

انڈونیشیا جسے "ایشیئن ٹائیگر” کہا جاتا ہے، 1990 کی دہائی کے اواخر میں اسی طرح کی معاشی ابتری کا شکار ہوا تھا اور وہاں فسادات اور سیاسی عدم استحکام نے جنم لیا تھا۔

اس وقت انڈونیشیا پر کئی دہائیوں سے حکمرانی کرنے والے شخص کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا تھا, اب صورت حال یہ ہے کہ انڈونیشیا دنیا کی سب سے بڑی 20 صنعتی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔

Sri Lanka - IFEX

سری لنکا کے معاشی زوال کی بڑی وجہ مالیاتی امور میں بے نظمی ہے جسے کورونا کی وبا نے مزید بدترین حالات تک پہنچایا پھر اس ملک میں 2019 میں ہونے والے دہشت گرد حملوں نے سیاحت کی انڈسٹری کو دھچکا پہنچایا۔

کورونا وبا کے دوران دیگر ممالک میں کام کرنے والے سری لنکا کے شہریوں کو اپنے وطن رقوم منتقل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

What the Crisis in Sri Lanka Means for the World | Time

سال2019 میں سری لنکن حکومت نے بھاری قرضے لیے اور ٹیکس کم کر دیے پھر حکومت کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اس قدر کم رہ گئے کہ وہ درآمدات کی قیمت ادا کرنے کے قابل نہیں رہی۔

اب سری لنکا کے عام شہریوں کو اس بحران کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے اور انہیں اشیائے ضروریہ کے حصول کے لیے دو دو کلومیٹر طویل قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔

اسی طرح گیس کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے آٹھ افراد کی ہلاکت کا واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔ دوسری جانب بہت سے لوگوں نے گیس نہ ملنے کی وجہ سے سائیکلیں چلانا شروع کر دی ہیں۔

Sri Lankan medicine shortage a death sentence for some

حکومت نے شہری علاقوں کے اسکول اور یونیورسٹیاں بند کردی ہیں جبکہ سرکاری ملازمین کو بھی لمبی چھٹیوں پر بھیجا جا رہا ہے تاکہ وہ کھیتی باڑی کرکے اپنی گزر بسر کا انتظام کریں۔

گو کہ سری لنکا ایک جمہوری ملک ہے لیکن اکثر شہری وہاں سیاسی برتری رکھنے والے راجا پکسا کے خاندان کو اس بحران کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

ایک پرائیویٹ کمپنی میں بطور کلرک کام کرنے والے رنجانا پدماسری کا کہنا ہے کہ یہ سب ان ہی کی غلطی اور ہمیں اب یہ حالات بھگتے پڑ رہے ہیں۔

اب تک راجا پکسا خاندان کے دو اہم افراد وزیراعظم مہندا راجا پکسا اور وزیر خزانہ باسل راجا پکسا نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا ہے جبکہ مظاہرین صدر گوتابایا راجا پکسا سے بھی عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

گذشتہ دو ماہ سے صدر کے دفتر کے باہر بڑی تعداد میں شہری احتجاج کر رہے ہیں، رنجانا پدماسری نے کہا کہ استعفیٰ کافی نہیں ہے، وہ آسانی سے بھاگ نہیں سکتے، انہیں اس بحران کا ضرور جواب دہ ٹھہرانا چاہیے۔

Comments

- Advertisement -