اتوار, مئی 19, 2024
اشتہار

تعلیم و تدریس کے عمل میں علمِ نفسیات کا حصّہ

اشتہار

حیرت انگیز

نفسیات کی ابتدا کی بہت سی وجوہات ہیں جیسے کہ ناموافق حالات ہوں تو انسان اپنے آپ کو کم زور کیوں محسوس کرنے لگتا ہے۔ ناقابلِ برداشت بات پر غصّہ کیوں آتا ہے۔ انسان کو بعض اوقات دل چسپ یا ڈراؤنے خواب کیوں نظر آتے ہیں؟ اچھائی یا کام کا صلہ ملنے پر انسان خوش کیوں ہوتا ہے؟ یا کسی چاہنے والے یا عزیز کی موت پر کیوں روتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جنہوں نے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان سب باتوں میں کہیں نہ کہیں انسان میں چھپی ہوئی نفسیات کا ہاتھ ہے۔

نفسیات یونانی (Greek) لفظ Psychoe Logos ہے۔ سائیکو کا مطلب ہے روح اور لوگو کا مطلب ہے سائنس۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ علمِ نفسیات انسان کے Behaviour یا برتاؤ کا علم ہے جیسا کہ واٹسن نے کہا ہے کہ: "برتاؤ ایک ایسا ردعمل ہے جو انسان کے باہری برتاؤ اور اندرونی حالات کو دکھاتا ہے۔”

جب ہم تعلیم کی بات کرتے ہیں تو تعلیم کا اصل مقصد انسان کے Behaviour یا برتاؤ کو صحیح طرح سے بدلنا ہوتا ہے۔ جب انسان نے ترقی کرنا شروع کی اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھنا شروع کیا تب تعلیمی نفسیات وجود میں آئی۔

- Advertisement -

Herbert, Froebal, Cattell, Alfredbinet, Thormdike, Ternan, B.F. Skimmer, Pavlov وغیرہ نے علمِ نفسیات کو ترقی دینے میں بہت زیادہ تعاون دیا۔ علمِ نفسیات میں تین چیزیں بہت اہم رول ادا کرتی ہیں۔
1۔ سیکھنے والا (learner)
2۔ سیکھنے کا طریقہ (Process)
3۔ اعادہ (Evaluation)

تعلیم میں علمِ نفسیات کا حصّہ
(1) طالبِ علموں میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔
(2) Audio-visul طریقوں سے بچے جلدی سیکھ لیتے ہیں۔
(3) انتظامی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
(4) صحیح ٹائم ٹیبل بنا سکتے ہیں۔
(5) کھیل کود Co-Curriculer Activities کے ذریعہ سکھانے کا عمل کر سکتے ہیں۔
(6) نئے نئے سکھانے کے طریقے استعمال کرکے سیکھنے کے عمل کو Innovative بنا سکتے ہیں۔

علم نفسیات کا مواد
(1) نفسیات اور تعلیم
(2) مختلف انسانی گروہ اور اس کی نشوونما
(3) سیکھنے کا عمل یا آموزش
(4) پرسنالٹی اور باہمی اشتراک
(5) مختلف قسم کے انسان اور ان کی آموزش
(6) آموزش کو ناپنا اور اس کا اعادہ

سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں تعلیمی نفسیات کے بہت سے مقاصد ہیں اور اساتذہ کے لئے یہ ایک اہم مضمون ہے جس کے ذریعہ وہ بچوں کی نفسیات کو سمجھ کر انہیں سکھا سکتے ہیں۔ ویسے تو بہت سے مقاصد ہیں لیکن سہولت کے حساب سے انہیں ہم چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

(1) خود شناسی
عربی کا بہت مشہور مقولہ ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ ہر انسان میں جذبات، احساسات، تفکر، استدلال، بے چینی وغیرہ ہوتی ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے اور سماج میں رہتے ہوئے کہیں نہ کہیں اس کے انہیں احساسات کا رد عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ تعلیمی نفسیات ہماری کمیوں کو دور کر کے اور ہماری صلاحیتوں کا اندازہ کروا کے ہمیں اپنے مقصد میں کام یاب ہونے کا راستہ دکھاتی ہے۔ اکثر لوگ کام یاب زندگی بسر کرنے سے اور اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے استعمال سے اسی لئے محروم رہتے ہیں کہ وہ اپنے جسمانی، جذباتی، ذہنی اور سماجی تقاضوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ صحیح معنوں میں تعلیمی نفسیات ہمیں اپنے آپ کو پہچاننے میں ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔

(2) دوسرے لوگوں کو سمجھنا
جس طرح اپنے آپ کو سمجھنا ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح کام یاب زندگی بسر کرنے کے لئے دوسرے لوگوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ چاہے ہم اپنا گھر، اسکول، کالج، سماج یا کچھ اور اداروں کو بخوبی چلانا چاہیں تو ہمیں ہر ایک فرد کی نفسیات کا خیال رکھنا پڑے گا۔

دوسروں کی شخصیت کی خوبیوں و احساسات کی قدر اور ان کی ضروریات تسلیم کرنا ہی باہمی تعلقات کو خوشگوار بناتے ہیں۔ تعلیم کے حصول کے لئے سیکھنے اور سکھانے والے دونوں ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ ایک اچھا استاد اسی وقت اپنے طالبِ علم کو سکھا سکتا ہے جب وہ اس کی نفسیات سے پوری طرح واقف ہو۔ مثلاً کوئی بچّہ درجہ میں شرارت کرتا ہو یا خاموش رہتا ہو یا سوال جواب میں حصہ نہ لیتا ہو تو ایسے بچے کی نفسیات کا مطالعہ کر کے استاد اس کو بہتر سکھانے کا عمل کرتا ہے۔

(3) سماجی مسائل کا حل
سماج انسان کے رہنے سہنے اور اس کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ آج کل ہم سماج میں بہت سے ایسے مسائل دیکھتے ہیں جو خود انسان کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ اسی لئے انسان کی طرزِ فکر، جذبات، احساسات وغیرہ کے مکمل علم کی مدد سے ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے اور اس میں تعلیمی نفسیات کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس کے علم سے انسان تعصب، حسد، جنگ و جدل، اقوام کی باہمی کشمکش، جرائم اور بہت سی سماجی برائیوں سے بچ سکتا ہے۔

(4) علم برائے علم
تعلیمی نفسیات صرف زندگی کے عملی پہلوؤں سے ہی واقف نہیں کراتی بلکہ نظری تحقیقات سے بھی ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے۔ اگر کسی بھی درجہ میں ہمیں کوئی پریشانی لاحق ہو تو ہم تحقیق کر کے اس کو حل کر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک کلاس میں سبھی طالب علموں کے نمبر ہر ایک مضمون میں کم آتے ہیں تو اس تحقیقی عمل کے ذریعہ یہ پتا لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ جیسے ہو سکتا ہے کہ کلاس میں مکمل روشنی کی کمی ہو، تختۂ سیاہ صحیح حالت میں نہ ہو۔ صاف ہوا کی آمد و رفت نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔

یہ کہنا غالباً مبالغہ آمیز نہ ہوگا کہ شعبۂ تعلیم میں نفسیات کا استعمال سب سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ جدید تعلیم کی بنیاد ہی نفسیاتی اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ تعلیمی نفسیات ہر اس شخص کی تعلیم کا لازمی جزو ہے جو کسی مدرسہ میں مدرس بننے کا خواہاں ہوں۔ اس علم کا مقصد مدرسین کو ایسے طریقہ کار سے روشناس کرانا ہے جس کی مدد سے وہ طلبہ کی شخصیت متعین کرنے والے اعمال اور ان کی نشوونما پر اثر انداز ہونے والے اسباب کی حقیقت سے آگاہ ہو کر انہیں ضبط میں لا سکیں۔

ماہرینِ تعلیم مدّت سے یہ محسوس کرتے چلے آئے تھے کہ طلبہ کو سمجھے بغیر تدریسی عمل کبھی بھی مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلہ میں انہیں جتنی راہ نمائی اور مدد نفسیات سے ملی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ نفسیات نہ صرف ان محرکات پر روشنی ڈالتی ہے جو کسی کردار کی پیدائش کا باعث ہیں بلکہ ان ترغیبات کے مستقل اور غیر مستقل اثرات سے بھی آگاہ کرتی ہے جنہیں تعلیم یا آموزش میں ہمیشہ استعمال کیا جانا ہے۔

تعلیمی نفسیات کا درخشاں کارنامہ نفسیاتی آزمائشوں کا استعمال ہے جن کی مدد سے طلبہ کی ذہنی، جذباتی، معاشرتی اور تعلیمی ترقی پر روشنی پڑتی ہے۔ ان آزمائشوں کی ایجاد سے پہلے اساتذہ کے پاس کوئی ایسا معتبر ذریعہ موجود نہ تھا جس سے اس ترقی کا صحیح علم حاصل ہو سکتا ہے اور جس پر تعلیمی عمل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ معیاری آزمائشوں نے طریقِ تدریس کی ہیئت کو بالکل بدل ڈالا ہے۔ ان کی مدد سے انفرادی اختلافات کی حقیقت معلوم کی جا سکتی ہے اور پڑھانے کے طریقوں کو زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نفسیات نے تعلیم پر جو تجربے کئے ہیں اور ان سے جو اصول وضع کئے ہیں وہ اساتذہ کے لئے راہ نمائی کا کام دیتے ہیں۔ ان کی مددسے تعلیم کو زیادہ دل چسپ بنایا جا سکتا ہے۔ تحفظ اور فراموشی کے سلسلے میں جتنے تجربے کئے گئے ہیں ان کا اطلاق ہر مدرسہ میں ہو رہا ہے۔

"تدریسی مشینوں” اور "تدریسی پروگراموں” کی ایجاد نے جو سراسر نفسیات کی مرہون منت ہیں، پڑھانے کے طریقوں کو بڑا متاثر کیا ہے۔ ان کی مدد سے مشکل سے مشکل مضامین کی تعلیم بھی بڑی آسان ہو گئی ہے۔ یہ نیا طریقۂ تعلیم ترقی یافتہ ممالک میں ہی ہر دلعزیز نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک میں بھی اس سے کام لیا جا رہا ہے۔

مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو علم معلمین کی ہر قدم پر صحیح راہ نمائی کرتا ہے اور جو ان کے بے شمار مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے وہ علمِ نفسیات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علماء مدرسہ کو ایک طرح کی نفسیاتی تجربہ گاہ قرار دیتے ہیں جس میں نہ صرف سابقہ اصولوں کو پرکھا جاتا ہے بلکہ نئے نئے اصول دریافت کئے جاتے ہیں۔

(ماخوذ از کتاب: تعلیمی نفسیات کیا ہے، مصنّف عصمت جہاں صدیقی)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں