انیسویں صدی کے اواخر میں انگریزی زبان، برصغیر میں نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کے فروغ اور پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ بنی۔
بلاشبہ اس میں نئے علوم موجود تھے، اور نئے استعماری بندوبست نے ان کی ضرورت بھی پیدا کر دی تھی۔ اس بندوبست میں معاشی بقا کے لیے ان علوم کا سیکھنا ضروری ہو گیا تھا۔ جو لوگ اس ضرورت کا احساس نہیں کر سکے تھے، وہ معاشی پس ماندگی اور سماجی طور پر راندہ ہونے کا شکار بہ یک وقت ہوئے۔ تاہم نئے علوم کا سوال اتنا سادہ نہیں تھا، جتنا عام طور پر اسے سمجھا گیا۔ یہ نئے علوم، نسل پرستی پر مبنی نوآبادیاتی نظام کے زمانے اور اس کے تحت ہندوستان پہنچ رہے تھے۔ یورپ کے نئے علم اور یورپی استعماریت میں معاون علم میں فرق کرنے کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو کم ہی محسوس کیا گیا۔
ہم انیسویں صدی میں ایسے کئی ادبی متون دیکھتے ہیں، جن میں ایک طرف نئے علم کی وکالت اس پر زور انداز میں کی گئی کہ اس کے استعماری رخ یا منشا کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا، دوسری طرف انگریزی زبان کو نئے علوم کے ساتھ یورپی تمدن کا مظہر سمجھ کر اس کی حمایت کی گئی۔ اور ترقی کے لیے صرف علوم نہیں، یورپی تمدن کو پورے کا پورا قبول کرنا لازم ٹھہرایا گیا۔ یعنی اگر آپ انگریزی پڑھتے ہیں تو صرف جدید علوم ہی کا دروازہ نہیں کھلتا، ان سب اقدار کو بھی آپ حاصل کر لیتے ہیں، جو سفید فام نسل پرستی نے اپنے لیے مخصوص کیا: خیالات میں آزادی، استقلال، حوصلہ مندی، علو ہمتی، فیاضی، ہمدردی، سچائی، راست بازی۔ بغیر انگریزی پڑھے، ان سے آپ گویا محروم رہتے ہیں۔
دیسی زبانیں، دیسی نسلوں کی مانند ان سب شائستہ اوصاف سے محروم ہیں۔ نذیر احمد کے ابن الوقت کا یہ حصہ دیکھیے: انگریزی زبان کے رواج دینے سے ایک غرض تو علومِ جدیدہ کا پھیلانا ہے اور دوسری غرض اور بھی ہے۔ یعنی عموماً انگریزی خیالات کا پھیلانا۔ اکیلے علوم جدیدہ سے کام چلنے والا نہیں۔ جب تک خیالات میں آزادی، ارادے میں استقلال، حوصلے میں وسعت، ہمت میں علو، دل میں فیاضی اور ہمدردی، بات میں سچائی، معاملات میں راست بازی یعنی انسان پورا پورا جنٹلمین نہ ہو اور وہ بدونِ انگریزی جاننے کے نہیں ہو سکتا۔ ریفارم جس کی ضرورت ہندوستان کی ترقی کے لیے ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہندوستانیوں کو انگریز بنایا جائے۔ خوراک میں پوشاک میں، زبان میں، عادات میں، طرز تمدن میں، خیالات میں ہر اک چیز میں۔
(ناصر عباس نیر کے علمی و تحقیقی مضمون سے اقتباس)