تازہ ترین

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ارنسٹ ٹرمپ: سندھی اور پشتو زبانوں کا شیدائی

مشہور ہے کہ سب سے پہلے ارنسٹ ٹرمپ نے سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی کتاب شاہ جو رسالو کی تدوین اور اشاعت کا کام کیا۔ ارنسٹ ٹرمپ ایک جرمن مستشرق اور ایسا مشنری تھا جس نے برطانوی راج کے دوران پنجاب، سندھ اور شہر پشاور میں قیام کے دوران گراں قدر علمی اور ادبی کام کیا جن میں سے ایک شاہ جو رسالو کی اشاعت بھی تھا۔

جرمنی میں 1828ء میں آنکھ کھولنے والے ارنسٹ ٹرمپ (Ernest Trumpp) کا باپ جارج تھامس کارپینٹر اور کاشت کار تھا۔ اس کے بیٹے کو نوعمری سے مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق ہو چلا تھا۔ اور بعد میں یہی شوق ایک مشنری کی حیثیت سے اسے ہندوستان لے آیا جہاں اس نے تبلیغ کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے شوق اور دل چسپی کے میدان میں بھی خوب کام کیا۔

ارنسٹ ٹرمپ نے کم عمری میں انگریزی کے علاوہ لاطینی، یونانی، عربی، فارسی، سنسکرت، عبرانی اور دیگر یورپی زبانیں سیکھنے پر توجہ دی اور کام یاب رہا۔ وہ بعد میں جرمنی سے لندن پہنچا تو وہاں ایسٹ انڈیا ہاؤس میں اسے باآسانی اسٹنٹ لائبریرین کی ملازمت مل گئی۔ اسی ملازمت کے دوران جب وہ 30 سال کا تھا، تو اسے ہندوستان جانے کا موقع ملا اور یہاں ارنسٹ ٹرمپ نے پہلے بمبئی میں قیام کیا اور بعد میں کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔

اس شہر میں ارنسٹ کو مقامی زبانوں نے اپنی جانب متوجہ کرلیا اور سب سے پہلے اس نے سندھی زبان سیکھنا شروع کی۔ بہت قلیل مدت میں ارنسٹ نے سندھی زبان میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرلی۔ وہ گھومنے پھرنے کا دلدادہ تھا۔ اسے یہ سرزمین بہت پسند آئی اور اس نے سندھ کے مختلف علاقوں میں سیاحت کے دوران شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا کلام لوگوں سے سنا تو بہت متاثر ہوا۔ اسے صوفی بزرگ کے کلام میں غیر معمولی کشش محسوس ہوئی۔ ارنسٹ ٹرمپ اندرونِ سندھ عام لوگوں سے میل جول کے علاوہ شاہ عبداللطیف کے ارادت مندوں اور خانقاہوں سے وابستہ شخصیات کے ساتھ وقت گزارنے لگا اور شاہ کے گائے ہوئے کلام اور مقامی موسیقی کو اپنے لیے راحت کا موجب پایا۔ اس نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا کلام جمع کرنا شروع کیا۔ لوگوں سے سن کر لکھنے کے علاوہ اس نے مختلف رسائل بھی دیکھے اور اچھا خاصا کلام بہم کرلیا۔ اور پھر وہ سندھ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ 1866ء میں اس کا ایک مضمون اور شاہ لطیف بھٹائی کا کلام شاہ جو رسالو کے نام سے چھپوایا۔ ارنسٹ ٹرمپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام کا جائزہ لیتے وقت اس وقت کے معروضی حالات، سیاسی واقعات، معاشی و معاشرتی کیفیت، عام لوگوں کی مشکلات، حکم رانوں کی بے اعتنائیوں اور اخلاقی صورتِ حال کو بھی پیشِ نظر رکھا تھا۔

ارنسٹ ٹرمپ نے شاہ جو رسالو کو قدیم مروجہ رسمُ الخط میں شائع کیا تھا۔ وہ کراچی کے علاوہ پشاور میں سکونت پذیر رہا جہاں اس نے پشتو زبان سیکھی۔ 1870ء میں برطانوی سرکار نے ارنسٹ ٹرمپ سے سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب کا ترجمہ بھی کروایا جس نے اسے شہرت دی۔ 1873ء میں وہ میونخ یونیورسٹی میں سامی زبانوں کا پروفیسر مقرر ہوا۔ عربی اور دیگر سامی زبانوں پر ارنسٹ ٹرمپ کو ماہر تسلیم کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ کی بینائی آخر عمر میں جاتی رہی اور انھوں نے کافی تکلیف اٹھائی۔

وہ کئی قابلِ ذکر کتابوں کا مصنف تھا جن کا تعلق زبان اور قواعد سے تھا۔ سندھی حروف اور گرامر کی پہلی کتاب لکھنے کے علاوہ ارنسٹ ٹرمپ نے پشتو زبان کی تفہیم کے لیے بھی کتاب تحریر کی۔

5 اپریل 1885ء میں اس جرمن مستشرق کا انتقال ہوگیا۔ اسے آج بھی زبانوں کے تاریخی اور تقابلی مطالعہ کے ماہر کی حیثیت سے اور علمی کارناموں کے سبب یاد کیا جاتا ہے۔

Comments

- Advertisement -