تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

جب فیض احمد فیض کو اپنے بھائی سے شکوہ کرنا پڑا

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ کڑوی اور دل خراش، لیکن انسان مشیّتِ ایزدی کے آگے بے بس ہے۔ ہر ادنیٰ و اعلیٰ، خاص و عام، امیر غریب سبھی کو اس جہانِ رنگ و بُو سے ایک روز جانا پڑے گا۔

اسی موضوع پر یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے

ہر عام آدمی کی طرح فن کار اور اہلِ قلم بھی اپنوں کی دائمی جدائی کا صدمہ اٹھاتے ہیں اور رفتگاں کو شدّت سے یاد کرتے ہیں اور یہ شدّت، یہ کرب اُن کی قوّتِ متخیلہ سے اُن کے فن میں ڈھل کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اردو شاعری میں اس کی مثال مراثی اور حزنیہ کلام ہے۔

یہاں‌ ہم اردو زبان کے عالمی شہرت یافتہ، ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی ایک ایسی ہی نظم پیش کررہے ہیں‌ جو انھوں‌ نے اپنے بھائی کی رحلت کے بعد ان کی یاد میں‌ لکھی تھی۔ اس نظم کا عنوان "نوحہ” ہے جس میں فیض نے بھائی کے لیے اپنی محبّت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دائمی جدائی کے کرب کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

نوحہ
مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہدِ شباب

اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب

کیا کروں بھائی یہ اعزاز میں کیوں کر پہنوں
مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیصوں کا حساب

آخری بار ہے لو مان لو اک یہ بھی سوال
آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب

آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

Comments

- Advertisement -