جمعرات, نومبر 28, 2024
اشتہار

فرح یاسمین شیخ: ’کلاسیکی رقص کو جدت اور پذیرائی مغل دربار سے ملی‘

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان میں کلاسیکی رقص ایسی کوئی مقبول صنف نہیں جو بہت عام دکھائی دے، عوامی طور پر رقص سیکھنے اور کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

لیکن وہ چند گنے چنے نام جو یہاں اس فن سے جڑے ہیں، کسی نہ کسی طرح کلاسیکی رقص کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ان میں کئی پاکستانی نام بھی ہیں، اور کئی ایسے بھی جو پاکستانی شہری تو نہیں لیکن ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح پاکستان سے رہا ہے۔

پاکستانی نژاد امریکی فرح یاسمین شیخ بھی ایسا ہی ایک نام ہیں جو پاکستان میں اس فن کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں، فرح کلاسیکی رقص کی ایک قسم کتھک کی رقاص اور کلاسیکی رقص کی استاد ہیں۔

- Advertisement -

پاکستانی نژاد فرح 1977 میں امریکی ریاست کیلی فورنیا، سیلیناز میں پیدا ہوئیں، ان کے والدین 1971 میں کراچی سے امریکا منتقل ہوئے تھے۔

فرح نے 5 سال کی عمر سے رقص سیکھنا شروع کیا لیکن ابتدا میں اطالوی اور امریکی رقص بیلے اور جاز سیکھا، 18 سال کی عمر میں وہ تعلیم کے لیے دوسرے شہر سان فرانسسکو گئیں، وہاں ان کے کورس میں ایک کلاس کلاسیکل ڈانس آف انڈیا کی تھی، وہیں ان کا کلاسیکی رقص سے تعارف ہوا اور پھر انہوں نے مستقل اسے ہی اپنا لیا۔

’مجھے کہا گیا کہ آپ نے بہت دیر کردی ہے، 18 برس عمر نہیں ہے رقص سیکھنا شروع کرنے کی، لیکن میں نے سیکھ کر ہی دم لیا۔‘

فرح کے استاد کلکتہ، بھارت سے تعلق رکھنے والے نامور رقاص پنڈت چتریش داس تھے جو امریکا میں مقیم تھے، فرح 18 سال ان کے زیر تربیت رہیں۔ ان کے علاوہ فرح نے معروف پاکستانی رقاصہ ناہید صدیقی سے بھی رقص سیکھا۔

فرح بتاتی ہیں کہ ان کے والد امجد نورانی جو ایک ماہر تعلیم تھے، خاصی نمایاں شخصیت تھے اور انہوں نے اپنے گھر میں بچپن سے ہی معروف شخصیات کی آمد و رفت دیکھی۔

’ہمارے گھر میں استاد نصرت فتح علی خان، استاد علی اکبر، ذاکر حسین اور اقبال بانو جیسی شخصیات کا آنا جانا تھا، سو یہ فطری تھا کہ میری دلچسپی رقص و موسیقی کی طرف ہوگئی۔‘

دنیا بھر میں کتھک پرفارم کرنے والی فرح کی دلچسپی کا خاص موضوع مغل دور اور خاص طور پر ملکہ نور جہاں ہیں، وہ تقسیم ہند کی کہانیاں بھی اپنے رقص کے ذریعے پیش کرچکی ہیں۔

کتھک کیا ہے؟

برصغیر کا کلاسیکی رقص ہزاروں سال قدیم تاریخ رکھتا ہے، اس کا پہلا باقاعدہ ذکر سنسکرت زبان کی تصنیف ’ناتیا شاسترا‘ میں ملتا ہے، یہ تصنیف پرفارمنگ آرٹس کے بارے میں ہے جو 200 قبل میسح میں لکھی گئی۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق برصغیر کے قدیم کلاسیکی رقص کی 6 اقسام ہیں۔

بھارت ناٹیم: اس کا آغاز جنوبی ہند کے علاقوں اور خاص طور پر تامل ناڈو سے ہوا، اسے مندر کا رقص کہا جاتا ہے جس کے ذریعے خواتین رقاصائیں مذہبی داستانیں پیش کرتی ہیں۔

کتھک کلی: اس کا آغاز جنوب مغربی علاقوں اور خاص طور پر کیرالہ سے ہوا، بھارت ناٹیم سے ملتے جلتے اور مذہبی اثر رکھتے اس رقص میں عموماً مرد رقاص محو رقص ہوتے ہیں اور خواتین کا کردار بھی مرد ہی نبھاتے ہیں۔

کتھک: کتھک سنسکرت زبان کا لفظ ہے جو ’کتھا‘ یعنی کہانی سے نکلا ہے،اس رقص کا آغاز شمالی ہند کے علاقوں سے ہوا۔

کتھک رقص کی خاص بات نزاکت ہے اور اسے محبت کا رقص بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا خاص جزو رقص کے ذریعے کہانیاں پیش کرنا ہے۔

کتھک میں گھنگھرؤں کی جھنکار اور پاؤں کے تال میل کو (جسے تتکار کہا جاتا ہے) خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ رقص بھی مندر میں کیا جاتا تھا تاہم جلد ہی یہ عام لوگوں میں بھی مقبول ہوگیا اور مختلف تہواروں اور تقاریب کا اہم حصہ بن گیا۔

منی پوری: شمال مشرقی ہند سے شروع ہونے والے اس رقص میں لوک داستانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔

کچھی پوری: جنوب مشرقی ہند کے اس رقص میں رقاص گاتے بھی ہیں۔

اوڈیسی: مشرقی ہند کے علاقوں کا یہ رقص قدیم ترین رقص ہے جس میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کی شبیہہ پیش کی جاتی ہے، اسے ایک مشکل اور سب سے زیادہ تاثراتی رقص کہا جاتا ہے جس میں 50 سے زائد مدراز (ہاتھوں کی حرکت) شامل ہیں۔

فرح کے مطابق جب انہوں نے رقص سیکھا تب یہ 6 اقسام ہی تھیں، لیکن اب چند مزید علاقوں کے لوک رقص کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے جس کے بعد اب ان کی تعداد 8 ہوگئی ہے۔

’کلاسیکی رقص پورے جنوبی ایشیا کا اثاثہ ہے‘

سنہ 2016 میں فرح نے ایک ڈانس انسٹی ٹیوٹ ’نورانی ڈانس‘ قائم کیا، یہاں انہوں نے کلاسیکی رقص کو صرف بھارت کے نام سے محدود کرنے کے بجائے جنوبی ایشیا کے نام سے موسوم کیا، ’یہ صرف انڈین کلاسیکل ڈانس نہیں بلکہ کلاسیکل ڈانس آف ساؤتھ ایشیا ہے کیونکہ یہ صرف بھارت یا پاکستان کے کلچر کا حصہ نہیں، یہ تو بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی ثقافت کا بھی حصہ ہے، یہ رقص بہت قدیم اور چند تبدیلیوں کے ساتھ پوری جنوبی ایشیائی ثقافت کا حصہ ہے، ہماری ثقافتی تاریخ مشترکہ رہی ہے۔‘

فرح کا کہنا ہے کہ اپنے والدین کے نام پر بنائے گئے ان کے اس ادارے میں سیکھنے والے متنوع پس منظر کے افراد ہیں، لیکن ان میں پاکستانی بہت کم ہیں۔ ’شاید وہ اسے اپنی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھتے، جو اس رقص کو سیکھنا چاہتے ہیں وہ امریکا میں رہتے ہوئے دراصل اپنی ثقافت سے جڑنا اور اسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں، مجھے بہت خوشی ہوگی اگر زیادہ سے زیادہ پاکستانی رقص کو، اور خاص طور پر کلاسیکی رقص کو پاکستانی ثقافت کا حصہ سمجھیں‘۔

’پاکستان میں پرفارمنس کا الگ ہی لطف ہے‘

فرح یاسمین شیخ دنیا بھر میں پرفارم کرچکی ہیں لیکن بقول ان کے، پرفارمنس کی جیسی داد پاکستان میں ملتی ہے ویسی کہیں اور نہیں ملتی۔ ’یہاں لوگ اس زبان کی شاعری کو، اور موسیقی کو سمجھتے ہیں، انہیں اس کا مطلب، اس کی نزاکت کا علم ہے، ہر ہر شعر پر اور مصرعے پر لوگ جس طرح جھوم کر داد دیتے ہیں، ایسے کہیں اور نہیں مل سکتی۔‘

’چاہے اقبال بانو کی گائی غزلوں پر پرفارمنس ہو، فیض کی غزل ہو یا امیر خسرو کا کلام، لوگ جب اس پر رقص دیکھتے ہیں تو اس کلام، اس غزل کی نئی جہت ان پر آشکار ہوتی ہے اور پھر جو ان کی داد ہوتی ہے اس کی مثال ہی نہیں ملتی، پاکستان میں پرفارم کرنے کا مزہ ہی کچھ الگ ہے۔‘

لیکن کیا انہیں کبھی کسی تنقید یا تنازعے کا سامنا بھی کرنا پڑا؟

اس بارے میں فرح بتاتی ہیں، کہ اب تک یہاں ان کی پرفارمنسز کے تجربات شاندار رہے اور انہیں کسی منفی تبصرے یا ناخوشگوار تجربے کا سامنا نہیں کرنا پڑا، البتہ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے حالات بدل گئے ہیں۔

’میرے سوشل میڈیا پر لوگ اکثر ایسے کمنٹس کرتے ہیں کہ اللہ آپ پر رحم کرے، آپ کو معاف کرے۔ میں ہر شخص کے نظریے کی عزت کرتی ہوں، لیکن مجھے علم ہے کہ میں کچھ غلط نہیں کر رہی، میرا دل مطمئن ہے۔ میں ایسے تبصروں کا جواب نہیں دیتی اور میری ہدایت پر میری ٹیم انہیں حذف کردیتی ہے کیونکہ میں منفی چیزوں کو اپنے کام کے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتی۔‘

کلاسیکی رقص ہندو دیو مالائی داستانوں کا حصہ رہا ہے اور اسے مندروں سے منسلک سمجھا جاتا ہے، تو کیا یہ وجہ رہی جس کی وجہ سے پاکستان میں اسے اپنانے سے گریز کیا جاتا ہے؟

اس سوال پر فرح نے کہا، ’کلاسیکی رقص کا آغاز ہزاروں سال پہلے مندروں میں ضرور ہوا، لیکن اسے عروج مغل درباروں میں ملا۔ آج کلاسیکی رقص میں جو جدت ہے اور آج اس کا جو چہرہ ہم دیکھتے ہیں، یہ مغل دربار کے بغیر ناممکن تھا۔ رقص یا فن ویسے بھی کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتا، یہ خطے کا مشترکہ اثاثہ ہوتا ہے، یہ رقص جتنا بھارتی ہے، اتنا ہی پاکستانی بھی ہے۔‘

تاہم فرح نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان میں اس حوالے سے خاصی حساسیت پیدا ہوچکی ہے، خواتین رقاص کو خاص طور پر منفی تبصروں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ’میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کوئی متنازعہ چیز نہ پیش کروں، میری دلچسپی کا محور ویسے بھی مغل دور، اس دور کی ملکاؤں اور تقسیم کی کہانیوں کو پیش کرنا ہے تو میں وہی پرفارمنسز یہاں پیش کرتی ہوں، البتہ امریکا یا دیگر ممالک میں، میں نے ہندو دیو مالائی کہانیوں، رامائن اور مہابھارت کی داستانوں پر بھی پرفارمنس دی ہے۔‘

رقص و موسیقی کو معیوب کیونکر سمجھا جانے لگا؟

فرح کا کہنا ہے کہ جب وہ پیدا ہوئیں تو اس وقت پاکستان میں ضیا ڈکٹیر شپ تھی اور رقص و موسیقی کو ممنوع قرار دیا جاچکا تھا، ’اگر میں یہاں ہوتی تو اپنی زندگی کے ابتدائی 10 سال اس سے محروم رہتی، اس دور میں پرورش پانے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ ان کی زندگی اور ثقافت میں سے کیا چیز غائب کردی گئی ہے، شاید اسی لیے اب رقص کے بارے میں اس قدر عدم برداشت پیدا ہوگئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ابھی یہاں کچھ عرصہ قبل صوبہ سندھ کے اسکولوں میں موسیقی کو نصاب کا لازمی حصہ قرار دیا گیا تو انہیں بہت خوشی ہوئی، البتہ اس پر جو تنقید کی جاتی رہی، اور اس فیصلے کو واپس لینے پر زور دیا جاتا رہا، اس سے انہیں خاصا دکھ پہنچا۔

’کسی چیز کو یکدم ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا، اگر موسیقی پر، یا رقص پر یا کسی اور فن پر اعتراض ہے تو اس میں تبدیلی لائیں، ابتدا میں اسے یہاں کے کلچر جیسا بنانے کی کوشش کریں تاکہ لوگ اسے کم از کم قبول تو کرنا شروع کریں۔ اگر بالکل ہی ممنوع کردیا جائے، تو پھر آگے بڑھنے اور برداشت کرنے کی طرف راہیں کیسے کھلیں گی۔‘

فرح کہتی ہیں کہ ان کا مقصد رقص کے ذریعے محبت اور مثبتیت کو فروغ دینا ہے، ’کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ آرٹ اور رقص لوگوں کو جوڑتا ہے، ان میں محبت پیدا کرتا ہے، نفرت اور دوری نہیں۔ اگر ہم اپنے دل اور دماغ کو کھولیں گے، سب کے لیے جگہ بنائیں گے، تو ہی یہ انسانیت اور اس دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔‘

Comments

اہم ترین

مزید خبریں