ساتھیو!
کیسے ہیں آپ؟ آج میں آپ کی ملاقات اپنے وطن کے ایک ایسے دانشور سے کروا رہی ہوں جن کے اندر آج بھی ایک بے حد معصوم اور شرارتی بچّہ چھپا بیٹھا ہے۔ آپ ہیں نہایت محترم اور شفیق استاد، محقّق، دانشور، ماہرِ تعلیم، ماہرِ لسانیات، کئی کتابوں کے مصنّف، اُردو لغت بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب۔
ڈاکٹر صاحب کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو کئی اعزازات سے نوازا گیا اور قومی اعزاز ”ستارۂ امتیاز“ بھی دیا گیا۔ میں نے ”بڑوں کا بچپن“ کے زیرِ عنوان ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے طویل اور دل چسپ گفتگو کی تھی، جو اے آر وائی کے قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گی اور وہ اپنے بچوں اور چھوٹوں کو بھی پڑھ کر سنا سکتے ہیں جس سے وہ نہ صرف اپنے وطن پاکستان کی اس بلند پایہ علمی و ادبی شخصیت کے بارے میں جان سکیں گے بلکہ اس سے ان میں مفید مشاغل اور مثبت سرگرمیاں اپنانے کا شوق پروان چڑھے گا۔ ڈاکٹر صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن وہ بچّوں سے بہت پیار کرتے تھے اور ان کے بڑوں سے کہتے تھے کہ ”بچّوں پر بھرپور توجہ دیں۔ آپ کی ذاتی توجہ آپ کے بچّوں کو اچھا انسان ہی نہیں اپنے شعبے کی ممتاز شخصیت بھی بنا دے گی۔“
سوال: آپ کا بچپن کیسا گزرا؟
جواب: میرا بچپن میرے دوسرے بھائی بہنوں کی بہ نسبت زیادہ لاڈ پیار میں گزرا، چونکہ میں ان سب سے زیادہ چھوٹا تھا۔ میرا بچپن بہت یادگار ہے۔
سوال: آپ نے اسکول میں کب داخلہ لیا؟
جواب: ہمارے ابا جی نے گھر میں پہلے فارسی پڑھائی اس کے بعد مثنوی مولانا روم یاد کرائی، گلستان بوستان پڑھائی۔ چار پانچ سال کی عمر سے ابّا جی مجھے قرآنی آیات بھی یاد کرانے لگے تھے، سات سال کی عمر میں ناظرہ ختم کر کے قرآن پاک کے چودہ پارے بھی حفظ کر لیے تھے۔ ان ہی دنوں ابّا جی کا انتقال ہو گیا تو حفظِ قرآن کا سلسلہ بھی رک گیا، لیکن میں نے سات سال کی عمر میں یعنی 1933ء میں اسکول میں داخلہ لے لیا۔
سوال: آپ کا شمار کیسے طالب علموں میں ہوتا تھا؟
جواب: بھئی ہم شرارتی بھی تھے، کھلنڈرے بھی تھے اور پڑھاکو بھی۔ اس وقت یوپی میں پرائمری اسکول درجہ چہارم تک ہوتے تھے۔ اور فائنل کا امتحان ڈسٹرکٹ بورڈ کے تحت تحصیلی مرکزوں میں ڈپٹی انسپکٹر کی نگرانی لیا جاتا تھا۔ مختلف اسکولوں کے اساتذہ پرچے بناتے تھے اور کاپیاں جانچتے تھے، ریاضی کے سخت سے سخت امتحان میں بھی میرے سو فیصد نمبر آتے تھے۔ ہر امتحان میں میری پوزیشن اوّل رہتی تھی۔ مجھے یاد ہے میرا پرائمری کا فائنل امتحان منعقد ہوا۔ اسکول سے تقریباً بارہ میل کے فاصلے پر امتحانی مرکز تھا۔ اس میں میرے ساتھ ہارون احمد، سید فرمان علی بھی شریک ہوئے تھے لیکن کام یاب صرف میں ہُوا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔
سوال: پہلی پوزیشن لانے پر کیا احساسات تھے؟ گھر والوں نے کیسے سراہا؟
جواب: میں اور میرے گھر والے تو خوش تھے ہی لیکن ہمارے علاقے میں ایک مسلمان طالب علم چونکہ ایک مدت بعد اس طرح کے امتحان میں اوّل آیا تھا اس لیے میری کام یابی کا جشن جگہ جگہ اس طرح منایا گیا جیسے میں نے کوئی معرکہ سر کر لیا۔
سوال: دوبارہ کبھی ایسی کام یابی حصّے میں آئی؟
جواب: جی ہاں مڈل اسکول کا فائنل امتحان میں نے درجہ اوّل میں پاس کیا اور ضلع بھر میں اوّل آیا۔ ہمارے اسکول کو برسوں بعد اس طرح کی امتیازی حیثیت حاصل ہُوئی تھی اس لیے خوب جشن منایا گیا۔ اچھے طالب علم کی حیثیت سے میرے ضلع میں میرا نام ممتاز ہو گیا۔
سوال: اس کام یابی پر سرکاری سطح پر آپ کی حوصلہ افزائی کی گئی؟
جواب: چوتھی جماعت میں پوزیشن آئی تو وظیفہ ملا، مڈل میں امتیازی کام یابی پر پہلے دو سال چھ روپے اور پھر آٹھ روپے مہینے کے سرکاری وظیفہ ملنے لگا۔
سوال: اس صورت حال میں اپنی مرضی کے ہائی اسکول میں داخلہ لینا تو بہت آسان ہو گیا ہوگا؟
جواب: اس وقت شہر میں تین ہائی اسکول تھے اور ان میں سے ہر ایک بہت سی رعایتوں کے ساتھ مجھے داخلہ دینے پر آمادہ تھا۔ لیکن میں نے مدرسہ اسلامیہ فتح پور میں جس کی انگریزی شاخ کا نام مسلم ہائی اسکول تھا داخلہ لیا۔
سوال: کون سا مضمون دل چسپی سے پڑھتے تھے؟
جواب: اردو اور ریاضی ہمیشہ میرے پسندیدہ مضامین رہے۔ ہمارے خاندان کے بیشتر افراد ریاضی داں کہلاتے تھے۔ ریاضی کے پرچے میں دس میں سے پانچ سوال حل کرنے ہوتے تھے مگر میں دس کے دس سوال حل کرتا تھا اور اُوپر لکھتا تھا کہ کوئی پانچ سوال دیکھ لیجیے۔
سوال: سب سے زیادہ نمبر کون سے مضمون میں آتے تھے؟
جواب: سب سے زیادہ نمبر ریاضی اور اُردو میں آتے تھے۔ شعر و ادب میں دل چسپی کا یہ حال تھا کہ غالب کا دیوان پورا یاد رہتا تھا۔ مڈل اور میٹرک تک تمام استاد شعراء کے چیدہ چیدہ اشعار یاد تھے جنھیں میں بیت بازی کے مقابلوں میں استعمال کرتا تھا۔
سوال: گویا غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصّہ لیتے تھے؟
جواب: یقیناً بیت بازی، اور تقریری مقابلوں میں تو بہت زیادہ۔ ایک مرتبہ اسکول کے سالانہ مشاعرے میں جگرؔ صاحب صدارت کر رہے تھے۔ فی البدیہ تقریر کے لیے موضوع تھا ”شاعری تضیع اوقات ہے“ میں نے موضوع کی حمایت میں تقریر کر کے اوّل انعام حاصل کیا جو جگرؔ صاحب نے اپنے ہاتھ سے دیا تھا۔ وہ تقریر سن کر بہت خوش ہوئے تھے۔

سوال: شعر و ادب سے گہرے لگاؤ نے کبھی شعر گوئی کی جانب مائل نہیں کیا؟

جواب: زریں بٹیا! شاعری تو ہماری گھٹی میں پڑ گئی تھی۔ اپنے قصبے کے مشہور شاعر تھے ہم، کئیوں کو تو شاعری لکھ کر بھی دی۔ چوتھی پانچویں کلاس سے ہم نے شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ ایک واقعہ یاد آگیا، فتح پور کے مشہور قصبے ہتگام میں ضلع بھر کے اسکولوں کے مابین مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہتگام میں بندر بہت ہوتے تھے اسی کو سامنے رکھ کر میں نے چند شعر کہے جس پر مجھے پہلا انعام ملا۔ یہ شعر خاص طور پر بہت مشہور ہوا تھا
واہ واہ کیا قصبہ ہتگام ہے
بندروں کا یاں ہجوم عام ہے
بیت باز ی اور فی البدیہ مباحثوں کے درجنوں مقابلے جیتے اور مولانا حسرتؔ موہانی اور جگرؔ مراد آبادی جیسے بڑے شاعروں کے ہاتھ سے انعامات حاصل کیے۔
سوال: بچپن کے دوستوں کے حوالے سے کوئی ایسا واقعہ جو ناقابلِ فراموش ہے؟
جواب: میرے چچا زاد بھائی سید فرمان علی میرے ہم جماعت اور پکے دوست تھے۔ ہماری دوستی اتنی پکی تھی کہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تقریباً ہر وقت ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ مڈل اسکول گھر سے پانچ چھ میل کے فاصلے پر تھا۔ میرے پاس سائیکل تھی ہم دونوں اسی پر جاتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے جب میں فرمان کے دروازے پر پہنچا اور اسکول چلنے کے لیے آواز دی تو چچی جان نے بتایا کہ ”ابھی وہ بڑے تالاب سے نہا کر آئے تھے۔ بہت تیز بخار چڑھ گیا“ اُتر گیا تو کسی کے ساتھ آجائیں گے، تم جاؤ، ماسٹر صاحب کو حال بتا دینا اور فرمان نہ پہنچیں تو چھٹی کی درخواست لگا دینا۔“ مجھے اسکول پہنچے بمشکل دو گھنٹے گزرے تھے کہ گاؤں کا ایک باسی ہانپتا کانپتا یہ منحوس خبر لایا کہ فرمان میاں کا انتقال ہو گیا۔ فرمان میرے عزیز ترین دوست تھے۔ لنگوٹیا یار تھے۔ میرے لیے اُن کی وفات بڑی جان لیوا تھی۔ کسی کام میں جی نہ لگتا تھا۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے میں نے ایک نظم کہی تھی۔ جو اب یاد نہیں، البتہ میں نے یہ کیا کہ اپنے نام کے ساتھ اُن کے نام کو تخلص کے طور پر لگا لیا، فرمانؔ کو بطور تخلّص لگا کر دل خوش کرتا تھا۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! آپ کے اصل نام سے تو بہت کم لوگ واقف ہیں آپ کو کبھی اس کا خیال نہیں آیا؟
جواب: یہ واقعہ 1938ء میں پیش آیا۔ اس وقت سے ” فرمان“ میرے نام کا جزو بن گیا، لوگ میرا اصل نام بھول گئے اور سب اسی نام سے پکارنے لگے۔ میں خوش ہوں کہ میرے ساتھ ساتھ میرا دوست بھی زندہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اب صرف وہی زندہ ہے میرا نام کوئی جانتا بھی نہیں۔ (ان کا اصل نام سید دلدار علی تھا)
سوال: بچپن میں کون سے کھیل شوق سے کھیلتے تھے؟
جواب: ہاکی، کرکٹ اور کبڈی شوق سے کھیلتا تھا، کُشتی کا تو بہت ہی شوق تھا۔باقاعدہ اکھاڑے میں کشتی سیکھنے جاتا تھا۔ کشتی کے ایک دنگل میں میرا مقابلہ گڑی ذات کے ہندو جاٹ سے ہُوا۔ اس سے پنجہ ملانے کے ساتھ ہی میں نے اندازہ کرلیا کہ وہ طاقت میں کسی طرح بھی مجھ سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہے۔ اس لیے طاقت سے زیادہ داؤ پیچ سے ہی کام چل سکتا ہے لیکن داؤ لگانا بھی آسان نہ تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں پوری دقت کے ساتھ پنجے دیے اور پیشانی سے پیشانی بھی ملا رکھی تھی اور میری کوشش یہ تھی کہ یہ جاٹ ذرا ڈھیلا پڑے تو میں گردن جھکا کر اُس کی ٹھوڑی پر حملہ کروں، لیکن شاید وہ بھی اسی تاک میں تھا، اس لیے ایسا کرنے کا موقع نہ ملا۔ ہم دونوں پندرہ بیس منٹ تک اسی قوت اور شدت سے ایک دوسرے کی پیشانی رگڑتے رہے کہ خون بہ نکلا۔ آخر کار ہمیں ایک دوسرے سے الگ کر کے ہی مقابلہ برابر قرار دے دیا گیا۔
سوال: کبھی کشتی کے مقابلے میں فتح بھی حاصل کی؟
جواب: فتح پور کے ضلعی ٹورنامنٹ میں کشتی کا پہلا انعام بھی ضلع کے کلکٹر جناب زاہد حسین کے ہاتھوں وصول کیا۔ یہ وہی زاہد حسین تھے جو بعد میں پاکستان اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر مقرر ہوئے۔
سوال: بچپن میں آپ کے کیا مشاغل تھے؟
جواب: وہی جو ہمارے گاؤں کے سارے بچّوں کے تھے۔ ہر موسم سے بھرپور لطف اندوز ہونا، بارش میں ایک دوسرے پر پانی پھینکنا، مچھلیاں پکڑنا، جھولے ڈالنا، اونچے درختوں پر چڑھ کر آم اور جامن توڑنا، میلوں ٹھیلوں اور جنگلوں میں جانا۔سردی میں صبح سویرے بٹیر کے شکار کے لیے ٹولیاں بنا کر نکلنا، شام کو الاؤ لگانا، اس کے ارد گرد بیٹھ کر رات گئے تک آگ تاپنا، کہانیاں سننا اور سنانا، جنگ نامہ اور شاہنامہ کبھی زبانی کبھی پڑھ کر الاپنا، نو ٹنکی اور اتائیوں کا تماشہ دیکھنے کے لیے دور دراز کا سفر کر کے پیدل چلنا۔ گرمی کے موسم میں کبھی چھت پر، کبھی گھر کے باہر میدان میں، کبھی کھیت کھلیان میں بھی سلائی ہوتی تھی، تربوز، خربوزے، ککڑی اور مونگ پھلی کے کھیتوں میں سونا ضروری ہوجاتا تھا کہ اس طرح فصلیں گیدڑوں سے محفوظ رہتی تھیں۔
سوال: اکثر بچوں کو جانور پالنے کا شوق ہوتا ہے، آپ کو دل چسپی تھی؟
جواب: دل چسپی کیوں نہ ہوتی جب گھر میں دو طوطے، ایک بندر، دو تین دودھ دینے والی بکریاں، ایک گائے، ایک بھینس اور ایک مینڈھا پلا ہُوا تھا۔ میں ان ہی کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا۔ میری عمر کا کوئی دوسرا بچہ گھر میں نہ تھا، بندر کے رہنے کے لیے گھر کے صحن میں ایک اونچا بانس گڑا ہُوا تھا جس کے اوپر ایک مچان بنا دیا تھا، بندر ڈھیلی زنجیر سے اس طرح بندھا رہتا کہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر آتا جاتا رہتا تھا، اگر کبھی زنجیر کی قید سے نکل بھاگتا تو اُچھل کود سے سارے گاؤں کو پریشان کر دیتا تھا اور مشکل سے قابو میں آتا تھا۔ مینڈھا چھوٹے قد کا تھا، اس کے چھوٹے چھوٹے سے سفید نرم بال مجھے بھی اچھے لگتے تھے۔ اس کے سر پر اندر کو مڑی ہوئی چھوٹی چھوٹی دوسینگیں بہت بھلی معلوم ہوتیں۔ بظاہر یہ بے خطر تھیں لیکن جب مینڈھا کسی کو سر مارنے آتا تھا تو جان کے لالے پڑ جاتے تھے، مجھ پر ایک بار خطرناک حملہ کیا تھا لیکن میں نے شور مچایا تو ایک چرواہے نے مجھے بچا لیا۔
سوال: بچپن کی ڈانٹ یا مار یاد ہے؟
جواب: ڈانٹ مار سب یاد ہے بٹیا۔ میں بہت چھوٹا تھا میرا گاؤں دریائے گنگا کے کنارے واقع تھا، ابا جی شادی کی ایک دعوت میں گنگا کے اس پار پریاں نامی قصبہ جا رہے تھے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ میں شادی میں جانے کی ضد کر رہا تھا۔ ابا جی نے پہلے تو پیار سے سمجھایا لیکن جب میں نہیں مانا تب انہوں نے تھانے داری والے دو تین بید رسید کیے (سب انسپکٹر جو تھے)۔ میں چیختا چلاتا گھر واپس پہنچا، امی جنھیں میں بی بی کہتا تھا کی گود میں بہت دیر تک سسکتا رہا۔
دوسرا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ہمارے چچا جو سارے خاندان کے بچوں کے سرپرست تھے، ندی اور تالاب میں نہانے اور جامن اور آم کے درختوں پر چڑھنے سے ہر لڑکے کو بہت سختی سے منع کرتے رہتے تھے، اگر کوئی پکڑا جاتا تو پٹائی بھی خوب لگتی تھی۔ لیکن ہمیں اتنا مزہ آتا کہ ہم میں سے کوئی بچہ باز نہیں آتا، کسی بچے کو معلوم ہوجاتا کہ چچا جان دوپہر کو سو رہے ہیں یا اس وقت گاؤں میں نہیں ہیں تو ہم تالاب میں نہانے اور جامن یا آم توڑنے کے لیے دوڑ پڑتے۔ ایک بار میں آم کے پیڑ سے گر گیا تو میرا دایاں ہاتھ کاندھے کے پاس سے اکھڑ گیا، بدن کے اکثر حصوں میں سخت چوٹیں آئیں، درد بہت شدید تھا، ہاتھ اُٹھائے نہیں اٹھ رہا تھا، بی بی کو خبر ہوئی تو انہوں نے چچا کو اطلاع کروائی، چچا جان غصے میں بھرے ہوئے آئے۔ نہ میرا حال پوچھا، نہ میری حالت دیکھی، دو تین ہاتھ رسید کیے اور جس ہاتھ میں چوٹ آئی تھی۔ اس کو پکڑ کر گھسیٹا اور کہنے لگے”میں نے منع کیا تھا نا کہ پیڑ پر مت چڑھنا اب بھگتو۔“ لیکن اتفاق سے ان کا یہ عمل میرے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ جس ہاتھ کی ہڈی، شانے کے پاس سے اکھڑ گئی تھی، یعنی جگہ سے بے جگہ ہو گئی تھی وہ اُن کے جھٹکوں اور مار کٹائی سے خود بخود اپنی جگہ پر آگئی اور اس طرح مجھے ہاتھ کی ناقابلِ برداشت تکلیف سے بہت جلد نجات مل گئی۔
سوال: کیا چیز آپ بچپن میں شوق سے کھاتے تھے؟
جواب: تل کے لڈو اور باجرے کے آٹے کی ٹکیاں۔ خود بھی کھاتا اوروں کو بھی کھلاتا تھا۔
سوال: آپ کو اپنے بچپن کے بے شمار واقعات یاد ہیں، یہ سب بڑوں سے سن سن کر یاد ہوئے یا آپ کے حافظے کا کمال ہے؟
جواب: کمال تو اللہ تعالیٰ کا ہے بٹیا! جس نے ہمیں اتنا اچھا حافظہ دیا اور فیضان ابا جی کا جنھوں نے محض چھ سات سال کی عمر میں فارسی کے متعدد اشعار اور گلستان بوستان کے بہت سے ٹکڑے بالخصوص فارسی کے نعتیہ اشعار زبانی یاد کرا ئے۔ میں بھی دل چسپی لیتا تھا، میری کتاب ”اردو کی نعتیہ شاعری“ کے مقدمے میں فارسی کے جو اشعار نقل کیے گئے ہیں، وہ میرے بچپن ہی کی یادوں کا سرمایہ ہیں۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! بچوں کے لیے کوئی پیغام؟
جواب: میرے پیارے بچو! محنت اور شدید محنت کو اپنا شعار بنالو، جو بھی کام کرو دیانت داری، محنت اور لگن سے کرو۔ جب تک ہمارے عمل میں یہ چیزیں شامل نہ ہوں ہم کام یابی حاصل نہیں کر سکتے۔ میرا تجربہ تو یہی بتاتا ہے، لہٰذا میں تم سے بھی یہی کہوں گا کہ جس میدان میں کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے لیے بنیادی اہمیت اپنے کام سے محبت اور جذبے کی ہے۔ کام یابی کا راز تو پوشیدہ ہی محنت میں ہے۔ بقول شاعر
چمن زارِ محبت میں اُسی نے باغبانی کی
کہ جس نے اپنی محنت ہی کو محنت کا ثمر جانا
(شائستہ زرّیں فیچر رائٹر اور مضمون نگار ہیں، ریڈیو، روزناموں اور ڈائجسٹ کے لیے انھوں نے کئی دل چسپ موضوعات پر سروے رپورٹیں اور نام ور شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں، پیشِ نظر انٹرویو کئی سال قبل بچوں کے ایک رسالے کے لیے کیا گیا تھا)

Comments