واشنگٹن: ماہرینِ فلکیات نے نظامِ شمسی کا سب سے تیز رفتار شہابیہ دریافت کیا ہے، تاہم یہ شہابیہ (asteroid) نہایت بے قاعدگی سے سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے اور اس دوران خطرناک حد تک سورج کے قریب چلا جاتا ہے۔
شہابیہ دریافت کرنے والے کارنیگی انسٹیٹیوشن آف سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف 113 دن میں سورج کے گرد ایک چکر مکمل کر لیتا ہے، اگرچہ سیارہ عطارد (مرکری) صرف 88 دن میں سورج کے گرد اپنا چکر پورا کرتا ہے، تاہم عطارد ایک سیارہ ہے اور اس کا مدار بھی مستحکم ہے۔
شہابیے کا مدار
فلکیاتی ماہرین نے بتایا ہے کہ نو دریافت فلکیاتی جسم ایک شہابیہ ہے، جس کا مدار خاصا بے قاعدہ اور بیضوی شکل کا ہے، جب یہ اپنے مدار میں گردش کر رہا ہوتا ہے تو اس دوران یہ سورج سے صرف 2 کروڑ کلومیٹر کی نزدیکی پر آ جاتا ہے، یہ فاصلہ عطارد کے سورج سے اوسط فاصلے (4 کروڑ 70 لاکھ کلومیٹر) سے بھی کم ہے۔
اس شہابیے کی جسامت تقریباً ایک کلومیٹر ہے، اسے اسکاٹ شیپرڈ اور ان کے ساتھیوں نے دریافت کیا ہے، اور اسے 2021 PH27 کا نام دیا گیا ہے، جب یہ شہابیہ سورج سے انتہائی دوری پر ہوتا ہے تو اس وقت اس کا فاصلہ 11 کروڑ کلو میٹر ہوتا ہے، یعنی سیارہ زہرہ (وینس) کے مدار سے بھی زیادہ، لیکن اپنے بے قاعدہ مدار کی وجہ سے یہ محض 2 کروڑ کی دوری پر بھی آ جاتا ہے۔
ماہرین فلکیات کے مطابق سورج کے زیادہ قریب آ جانے پر اس شہابیے کی رفتار اور زیادہ ہو جاتی ہے، اور سطح بھی شدید گرم ہو کر درجہ حرارت 500 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ پہنچ جاتا ہے۔
’2021 پی ایچ 27‘ کی دریافت کی تصدیق کئی طاقت ور دوربینوں کی مدد سے کی جا چکی ہے۔
شہابیہ کہاں سے آیا؟
اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کا تعلق کروڑوں سال قدیم شہابیوں کی پٹی سے ہے، ماہرین فلکیات نے اس کا عجیب و غریب مدار دیکھا تو یہ خیال ظاہر کیا کہ شاید یہ آج سے کروڑوں سال پہلے ’شہابیوں کی پٹی‘ (ایسٹرائیڈ بیلٹ) میں ہوا کرتا تھا۔
واضح رہے کہ اَن گِنت چھوٹے بڑے شہابیوں والی یہ پٹی مریخ اور مشتری کے درمیان واقع ہے، ماہرین کے مطابق شاید کسی وجہ سے اس شہابیے کا مدار متاثر ہوا اور اس نے اپنا راستہ بدل لیا۔
اس شہابیے کا مستقبل کیا ہے؟
ماہرین فلکیات کے مطابق اس کا موجودہ مدار بھی غیر مستحکم ہے، لہٰذا بہت امکان ہے کہ آئندہ چند لاکھ سال میں یہ زہرہ، عطارد یا سورج سے جا ٹکرائے اور اپنا وجود ہمیشہ کے لیے ختم کر لے، یا پھر اپنے موجودہ مدار کے مقابلے میں بالکل مختلف مدار میں چلا جائے۔
اسکاٹ شیپرڈ کا کہنا ہے کہ ایسے عجیب و غریب فلکی اجسام کی دریافت سے ہمیں شہابیوں اور دُمدار ستاروں کی ابتدا و ارتقا سے متعلق جاننے میں خاصی مدد ملے گی، اور ہم خود اپنے نظامِ شمسی کے بارے میں بھی بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو سکیں گے۔