تازہ ترین

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

بھٹہ مزدور کے بچوں کے نصیب میں خاک کیوں ہے؟ دل دہلا دینے والی رپورٹ

انسانوں کے بارے میں مشہور کہاوت ہے کہ مر کر خاک ہو جانا ہے، لیکن پاکستان میں لاکھوں مزدور جو بھٹوں پر کام کرتے ہیں وہ جیتے جی خاک ہو گئے ہیں، ان کا اوڑھنا بچھونا، کام کرنا سب خاک ہے۔ بھٹے پر کام کرنے والا خاندان مل کر پورے دن میں 1200 سے 1500 اینٹ ہی بنا پاتا ہے اور اس کے لیے انھیں 1200 سے 1500 روپے یعنی ایک روپیہ فی اینٹ ملتا ہے۔ اس رقم میں سے 50 فی صد قرضے کی رقم کٹ جاتی ہے اور پورے خاندان کی روز کی آمدن 500 سے 600 روپے تک ہی ہوتی ہے۔

بھٹہ مزدور نسل در نسل مقروض کیوں؟

اسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول سے کچھ میل دور فتح جنگ روڈ پر قائم ایک بھٹے پر کام کرنے والے مزدوروں نے بتایا کہ ان کا قرضہ 20 سال میں بھی ختم نہیں ہوا۔ بھٹے پر کام کرنے والے ایک مزدور غلام شبیر نے 20 سال پہلے 2 لاکھ روپے قرضہ لیا تھا، ڈیڑھ لاکھ واپس کیا، اب اس کی بیٹی 18 سال کی ہے اور عید کے بعد اس کی شادی کے لیے قرضہ لینا ہے۔

جب اس سے پوچھا گیا کہ 20 سال میں قرضہ واپس کیوں نہیں کر سکے تو اس کا جواب تھا کہ جو کمایا جب بیمار ہوئے تو سب خرچ کرنا پڑا۔ پاکستان میں اینٹوں کے بھٹے شہروں سے دور بنائے جاتے ہیں، اس لیے صحت کی سہولیات ان سے کوسوں دور ہیں۔ نامساعد حالات کی وجہ سے علاج معالجہ بھی نہیں کرا سکتے، جب تک بیماری بگڑ کر خطرناک نہ بن جائے علاج کے لیے گھریلو ٹوٹکے آزماتے رہتے ہیں، پھر پتا چلتا ہے کہ بیماری موت کا سبب بن گئی تو پھر کفن دفن یا میت اپنے آبائی علاقے میں پہنچانے پر پھر قرضہ لیتے ہیں۔

یہ کہانی اینٹوں کے بھٹہ پر کام کرنے والے ہر دوسرے خاندان کی ہے۔ فیاض نے بتایا کہ 20 سال میں 2 لاکھ روپے کا قرض اس لیے ختم نہیں ہوا، کیوں کہ اس کے والد بھٹہ پر مزدوری کے دوران مٹی سانس کے ساتھ پھیپھڑوں میں جمنے، بھٹے کی چمنی سے نکلنے والے آلودہ دھوئیں اور غیر معیاری پانی پینے کی وجہ سے دمہ کے مریض بن گئے تھے۔ بھٹہ پر مزدوری بہت کم تھی، اس لیے مرض پلتا رہا اور بگڑتا رہا، مزدوری کم تھی اور قرضہ اتارنا ہوتا تھا، اس لیے وہ علاج معالجے پر خرچ نہیں کر سکتے تھے۔

فیاض کا کہنا تھا کہ بھٹے پر مزوری کے دوران بیمار ہونے والے جب تک موت کے قریب نہیں پہنچتے علاج نہیں کراتے، جب موت کے قریب پہنچتے ہیں تو قرضہ لے کر علاج کراتے ہیں، اسی لیے ہر مزدور علاج معالجے، یا کسی اپنے پیارے کے فوت ہو جانے کی صورت میں کفن دفن کی وجہ سے مقروض در مقروض ہوتا رہتا ہے۔

بھٹہ مزدور مرد اور خواتین اور ان کے بچے بیمار کیوں رہتے ہیں؟

بھٹے پر کام کرنے والی خواتین کے لیے طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ خواتین زچگی کے دوران بھی اینٹیں بناتی ہیں۔ اس لیے ہر خاتون کے ایک سے دو بچے پیدائش کے وقت مر جاتے ہیں اور وہ اسے اپنا نصیب سمجھ کر پھر کام پر لگ جاتی ہیں۔ بھٹے پر کام کرنے والی ایک خاتون کے بچے 18 اور 16 سال کے ہو گئے ہیں اور اس کے ساتھ بھٹے پر کام کراتے ہیں، اسے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ حاملہ ماں کا ہر مہینے چیک اپ کرایا جاتا ہے، تاہم اس نے زچگی کے دوران کسی ڈاکٹر کو چیک اپ نہیں کرایا۔

بھٹہ مزدوروں نے بتایا کہ یہاں پینے کے لیے صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے، کبھی کوئی فلٹریشن پلانٹ تک نہیں لگایا گیا۔ آلودہ پانی پینے سے بچے، بزرگ اور خواتین بار بار بیمار ہوتی ہیں اور ان کے بچے غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے ہدف میں عالمی سطح پر 2030 تک حاملہ ماؤں کی شرح اموات ہر ایک لاکھ میں 70 خواتین تک مقرر کیا گیا ہے، ان حالات میں پاکستان کے لیے یہ ہدف حاصل کرنا اور بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔

چائلڈ اسٹنٹنگ، بھٹہ مزدوروں کی آئندہ نسل بھی غذائی قلت کا شکار

عالمی بینک نے اکتوبر 2023 میں جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 40 فی صد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جب کہ سندھ میں بچوں کو پلائے جانے والے 50 فی صد پانی میں بیکٹریا شامل ہوتے ہیں۔ عالمی بینک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5 سال سے کم عمر بیش تر بچوں کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں، پاکستان میں 5 سال سے کم عمر بیش تر بچوں کے لیے بیت الخلا کی سہولت نہیں، پاکستان میں 5 سے کم عمر بیش تر بچوں کے ساتھ مویشی بھی پلتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پیدائش کے بعد پہلے 1000 دن بچے کی ذہنی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے، پیدائش کے بعد پہلے ایک ہزار دنوں میں بچے کا 80 فی صد ذہن بنتا ہے، پاکستان میں 5 سال سے کم بچوں کی اموات میں 45 فی صد وجہ خوراک کی کمی ہے۔ خوراک کی کمی کا شکار بچے مٹی کھانے کی عادت کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ ایسی مٹی بھی کھا جاتے ہیں جس میں مویشیوں کا فضلہ شامل ہوتا ہے۔ اینٹوں کے بھٹے پر اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہوئے یہ بچے بھی اسی لیے غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس کھانے کے لیے ضرورت کے مطابق خوراک نہیں ہوتی، اور پینے کے لیے صاف پانی نہیں ہے۔

بھٹہ مزدوروں کی حالت زار میں بہتری کے لیے اقدامات

اسلام آباد بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے صدر چودھری غضنفر نے بتایا کہ بھٹہ مزدوروں کے لیے چائلڈ لیبر کی کوئی پابندی نہیں ہے، یہ والدین خود اپنے بچوں کو اپنے ساتھ بھٹے پر لے کر آتے ہیں اور انھیں اپنے ساتھ ہاتھ بٹانے پر لگاتے ہیں۔ بھٹے پر کام کرنے کے لیے خاندان کے مرد اور عورت دونوں کو کام کرنا پڑتا ہے، اس لیے اگر وہ بچوں کو اپنے ساتھ نہ لائیں تو ان کے پیچھے گھر پر بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

چوہدری غضنفر نے بتایا کہ اسلام آباد کی بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن ڈاکٹروں کی کسی بھی تنظیم کی جانب سے میڈیکل کیمپ لگانے کی کوششوں کا خیر مقدم کرے گی، اسی طرح اگر کوئی فلاحی ادارہ بھٹہ مزدوروں کی کالونی میں پانی کا فلٹریشن پلانٹ لگائے گا تو وہ اس کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔

اسلام آباد کے معروف چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر جنید جہانگیر عباسی کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش سے لے کر پہلے 5 سال اس کی صحت، نشوونما اور صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے بہت اہم ہیں، ایسے میں مزدور اپنے بچوں کو زبردستی کام پر لگا دیں یا انھیں کام کرنے پر زیادہ روٹی کا لالچ دیں، یا ہاتھ نہ بٹانے پر انھیں تشدد کا نشانہ بنائیں تو یہ بچے تشدد پسند ہو جاتے ہیں اور بڑے ہو کر وہ اپنی محرومیوں کا انتقام معاشرے سے اسٹریٹ کرائمز کی شکل میں لیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھٹہ مزدور، بھٹہ مالکان، میڈیا اور متعلقہ ادارے بھٹے پر کام کرنے والے مزدوروں کے بچوں کی جسمانی صحت بہتر بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔

پاکستان اقوام متحدہ کے تمام کے تمام 17 ایس ڈی جیز کے اہداف پاکستان کی آئندہ نسلوں کے گرد گھومتے ہیں۔ اس میں بچوں کو غذائی قلت سے بچانا، تعلیم کے مواقع دینا، صحت عامہ، پولیو اور دیگر ضروری ویکسینیشن فراہم کرنا، ماحولیاتی آلودگی سے بچانا، پینے کا صاف پانی فراہم کرنا اور سب سے اہم یہ کہ ان کے احساسات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے اہداف

اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے اہداف کے حصول میں ایس ڈی پی آئی کا فریم ورک اور پاکستان میں منتخب نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے توقعات کیا ہیں؟ پاکستان اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اہداف پر ایک فریم ورک پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ یہ ایس ڈی جیز اہداف اور اس کا فریم ورک پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق ہیں۔ ان ایس ڈی جیز کے اہداف میں باقاعدہ ایک فریم ورک پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے، جس میں ایس ڈی جی 8، ایس ڈی جی 12 اور ایس ڈی جی 13 وہ اہداف ہیں جن میں مزدوروں کے لیے کام کرنے کا ماحول بہتر ہونا ضروری ہے۔

یعنی انھیں پینے کا صاف پانی ملے

واش رومز کی سہولت ہو

ماحولیاتی آلودگی نہ ہو

انھیں صحت اور ان کے بچوں کے لیے تعلیم کی سہولت میسر ہو

مزدوروں کے لیے اس فریم ورک میں لیبر قوانین پر عمل درآمد، ان کی رجسٹریشن، ان کے لیے ای او بی آئی میں رجسٹریشن وغیرہ شامل ہیں۔

تحقیقاتی ادارے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) نے اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور اانٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشنز پر عمل درآمد کے لیے ‘Socially and Environmentally Compliant Brick Kiln Framework’ (SECBKF)

کے نام سے سماجی اور ماحولیات کے مطابق بھٹہ مزدورں کے لیے فریم ورک متعارف کرایا ہے۔ اس میں بھٹہ مالکان اور مزدورں کے درمیان ڈائیلاگ اور مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی فضا پیدا کی جائے گی۔ فریم ورک کے تحت بھٹہ مزدوروں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ اسٹریٹجی طے کی جائے گی تاکہ بھٹہ مزدوروں پر بھی لیبر لاز کا ا طلاق کرتے ہوئے پاکستان مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کیے گیے معاہدوں اور وعدوں پر عمل درآمد کرا سکے۔

سیاسی جماعتوں نے کیا وعدہ کیا؟

موجودہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور پاکستان پیپلز پارٹی تینوں جماعتوں نے اپنے منشور میں آئی ایل او کے لیبر قوانین پر عمل درآمد کے فریم ورک پر عمل درآمد کا وعدہ کیا ہے۔ جس میں ان کے لیے مزدور کارڈ اور صحت کارڈ بنا کر دیے جائیں گے۔ اس فریم ورک میں انھیں ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کیا جائے گا، ان کے لیے پنشن کی کوئی اسکیم لائی جائے گی، ایس ڈی جیز کے متعلقہ اہداف حاصل کیے جائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تینوں جماعتوں میں کون سب سے پہلے عمل درآمد کرتا ہے۔

Comments

- Advertisement -
شعیب نظامی
شعیب نظامی
Shoaib Nizami reports Finance, Fedeal Board of Revenue, Planning , Public Accounts, Banking, Capital Market, SECP, IMF, World Bank, Asian Development Bank, FATF updates for ARY News