اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک بار پھر عدالتوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے لیے تو ہتک عزت کا قانون فوری طور پر حرکت میں لایا جاتا ہے لیکن عوامی نمائندوں کی عزت سے کھیلنے کا لائسنس دیا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اطلاعات کے وفاقی وزیر نے پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی کنول شوزیب کے خلاف ہمسائے کے ساتھ جھگڑے کے تناظر میں ہونے والی تنقید پر ٹوئٹر پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
انھوں نے لکھا میں ایم این اے کنول شوزیب کے خلاف اخلاق سے گری ہوئی مہم کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ فواد چوہدری نے پیکا قوانین کے حوالے سے عدالتی فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا آخر ہم قوانین نافذ کیوں نہیں کر سکتے۔
فواد چوہدری نے عدالت کی جانب سے پیکا آرڈیننس کو ڈریکونین قرار دینے کے فیصلے پر سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ عدالتیں ان لوگوں کو عوامی نمائندوں کی عزت سے کھیلنے کا لائسنس نہ دیں، جب آپ پر بات آتی ہے ہتک عزت قانون حرکت میں آ جاتا ہے، دوسروں کی عزت کا تحفظ بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا قانون کی ‘ دفعہ 20 ‘ کےتحت گرفتاریوں سے روک دیا
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے تحت ایف آئی کو گرفتاریوں سے روک دیا ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے آرڈیننس کو ڈریکونین قوانین قرار دیا۔
یہ غلاظت بہتان و تہمت بازی اور جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے والا @realrazidada صحافت کا لبادہ اوڑھے کن کے اشاروں پر چلتا ہے سب کو معلوم ہے، اعلی عدالت رہنمائ فرمائے کے MNA کی کردار کشی تہمت بازی اور خاندان پر جھوٹے الزامات لگائے جائیں تو کونسے ادارے کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ #IHC https://t.co/7Ej7TbsZvc pic.twitter.com/xHdlCvOEVj
— Kanwal Shauzab MNA (@KanwalMna) February 25, 2022
انھوں نے کہا کہ عدالت کے لیے یہ بات تشویش ناک ہے کہ قوانین کو آرڈی نینس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا ہے، یہ عدالت پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کالعدم قرار کیوں نہ دے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا میں عدالتیں ایسا کر چکی ہیں، اگر ایگزیکٹو کو اپنی ساکھ کا اتنا خیال ہے تو اس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر پبلک آفس ہولڈر کی طاقت پبلک میں اس کی ساکھ ہوتی ہے، ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا ہے اس نے ایسا کیا، جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے سیاسی جماعتیں اور کارکنان ہی اس بات کے ذمہ دار ہیں تو پھر وہ اختلاف رائے سے کیوں ڈرتے ہیں؟