تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا قانون کی ‘ دفعہ 20 ‘ کےتحت گرفتاریوں سے روک دیا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ایکٹ میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کیخلاف دائر درخواست پر فیصلہ سنادیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیکا ایکٹ میں آرڈیننس کےذریعےترمیم کیخلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سماعت کی۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں آرڈیننس کے ذریعےپیکاقانون تبدیل کیا گیا،  جوخود کو عوامی نمائندہ کہتا ہے وہ بھی تنقیدسےنہ گھبرائے ، جس پر عدالت عالیہ نے ایف آئی اے اور وزارت داخلہ کو نئےقانون پر عمل درآمد سے روکنے اور پیکا قانون کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا۔

عدالت نےکیس میں معاونت کے لئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل پیش ہونے کا حکم دیا اور پیکا ایکٹ سےمتعلق تمام زیرسماعت کیسزیکجا کردیئے۔

یہ بھی پڑھیں: پیکا ترمیمی آرڈیننس کو لاہور ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کردیا گیا

عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ سیکشن 20 کےتحت کسی کمپلینٹ پر گرفتاری عمل میں نہ لائی جائے، ایف آئی اے پہلے ہی ایس او پیز جمع کرا چکی، ایس اوپیزپر عمل نہ ہواتو ڈی جی ایف آئی اے، سیکرٹری داخلہ ذمہ دارہونگے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ دنیا بھر میں ہتک عزت کو جرم سےالگ کیاجارہاہے، زمبابوے اوریوگنڈا بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سےنکال رہے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ عوامی نمائندے کیلئےتو ہتک عزت قانون ہونا نہیں چاہیے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔

آرڈیننس میں سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید کی سزا 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی ہے۔

شکایت درج کرانے والا شخص متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا سرپرست ہوگا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے اور یہ ناقابل ضمانت ہوگا۔

آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔

Comments

- Advertisement -