منگل, اپریل 29, 2025
اشتہار

اے حمید: اردو فکشن کا مقبول نام

اشتہار

حیرت انگیز

اے حمید نے اردو نثر کی مختلف اصناف میں اپنی تخلیقات یادگار چھوڑی ہیں۔ انھوں نے ڈرامہ لکھا، فکشن، شخصی خاکے اور طنز و مزاح کے علاوہ مختلف واقعات اور یادداشتوں پر مبنی کتابیں بھی۔ وہ اردو زبان کے مقبول ترین ادیب تھے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے اے حمید نے بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈرامہ ‘عینک والا جن’ تحریر کیا تھا اور یہ اپنے وقت کا وہ مقبول کھیل تھا جسے بچوں ہی نہیں بڑوں نے بھی پسند کیا۔

اے حمید نے مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کے دوران پیش آنے والے واقعات اور اپنے مشاہدات کو بھی کتابی شکل دی۔ اے حمید نے شاعری اور اردو نثر کی تاریخ بھی مرتب کی جس سے طالب علم اب بھی استفادہ کرتے ہیں۔ وہ 2011ء میں‌ آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

اے حمید کی تاریخِ پیدائش 25 اگست 1928ء ہے۔ ان کا وطن امرتسر تھا۔ ان کا نام عبدالحمید رکھا گیا جو اے حمید مشہور ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اے حمید نے ہجرت کی اور پاکستان میں ریڈیو سے بطور اسٹاف آرٹسٹ عملی زندگی شروع کی۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

اے حمید کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں ان کی کہانیوں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور نوجوانوں میں پسند کیے گئے۔ ان کی کہانیاں بچوں اور نوجوانوں میں تجسس اور جستجو پیدا کرنے کا سبب بنیں، وہ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں نوجوانوں کو معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتے رہے۔ اے حمید بچپن ہی سے بہت شرارتی تھے اور پڑھائی سے بھاگنے والے تھے۔ وہ کہتے ہیں:

’’میں نے چوتھی جماعت محلہ کے مشن اسکول میں پاس کی تو مجھے ایم اے او ہائی سکول میں داخل کروایا گیا۔ اسکول کی چھٹی ہوئی کشادہ ڈیوڑھی میں داخل ہوتے ہی میرا دل اداس ہو گیا۔ اسکول بچپن ہی سے میرے ایسی چار دیواری ہوا کرتی تھی جس کے اندر مجھے ایک خاص وقت کے واسطے بند کر دیا جاتا اور جہاں ہر آدھ پونے گھنٹے کے بعد میری پٹائی شروع ہو جاتی۔ میں پڑھائی میں نکما نہیں تھا۔ پٹائی اس لیے ہوتی کہ میں شرارتیں بہت کرتا تھا۔‘‘

میٹرک کے دوران وہ نصابی کتابوں کے ساتھ ہم نصابی کتابوں میں بھی دل چسپی لینے لگے۔ وہ اکثر لائبریری میں جا کر رسالے اور کتابیں پڑھتے تھے۔ اے حمید بچپن میں فلمی ایکٹر بننے کا شوق بھی رکھتے تھے۔ انھیں فطری مناظر سے زیادہ دل چسپی تھی اور مطالعہ رومانوی ادیبوں کا کرتے تھے۔ کرشن چندر ان کے پسندیدہ افسانہ نگار تھے۔ میٹرک کے بعد انھوں نے کچھ عرصہ ملازمت بھی کی۔ ان کے والد صاحب نے انھیں ریلوے ہیڈ کوارٹر میں کلرک بھرتی کروا دیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ایف اے میں داخلہ دلوا دیا۔ پہلا سال مکمل ہوا تو اے حمید ملازمت اور تعلیم سے چھوڑ کر سری لنکا بھاگ گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد رنگون چلے گئے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں: ‘‘اے حمید رنگون سے واپس ہوا تو تقسیم ہو چکی تھی۔ امرتسر جل رہا تھا۔ اے حمید لاہور پہنچا اور یہاں اسے ایک لڑکی نظر آگئی۔ اس مرتبہ اس نے ڈائری نہیں لکھی۔ افسانہ لکھا۔ ’’منزل منزل۔‘‘ اے حمید کا پہلا افسانہ ہے جو چھپا اور مقبول ہوا۔ ‘‘

تقسیِم ہند کے بعد وہ لاہور میں مختلف شہروں میں رہے لیکن آخر میں سمن آباد میں رہائش اختیار کی۔ یہاں انہوں نے باقاعدہ ملازمت نہیں کی لیکن وہ ریڈیو پاکستان لاہورسے وابستہ ہوگئے۔ یہ ملازمت انھوں نے ‘‘تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے’’ پروگرام کے ذریعے قبول کی تھی تاکہ ان کا اپنے دوستوں کے ساتھ تعلق قائم رہے۔یہ اپنے وقت کا مشہور پروگرام تھا۔ اے حمید لکھتے ہیں:‘‘ہم لوگ اس بات میں خوش تھے کہ روز شاعر، ادیب دوستوں سے ملاقات ہو جاتی۔ کینٹین میں بیٹھ کر اکھٹے چائے پیتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، باغیچے میں کھلے ہوئے گلاب کے پھولوں کے قریب جا کر دیکھتے۔‘‘ وہ عاشق مزاج بھی تھے۔ کئی عشق ناکام یا یک طرف ثابت ہوئے اور پھر 1954 میں اے حمید کا آخری عشق کام یاب رہا۔ شادی ہوئی اور زندگی آگے بڑھی۔

اے حمید اپنے ادبی سفر کے آغاز کے بارے میں لکھتے ہیں: ‘‘میں اصل میں پینٹر بننا چاہتا تھا یا خراد کا کام سیکھنا چاہتا تھا جو مجھے بچپن میں ہی بڑا اچھا لگتا تھا۔ لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ اپنی پہلی محبت کا زخم کھانے کے بعد میں نے اس کا افسانہ بنا ڈالا اور اپنے دوست اور اس زمانے میں‘‘ادب لطیف‘‘ کے ایڈیٹر عارف عبدالمتین کے کہنے پر اسے ’’ادب لطیف ‘‘کے سال نامے میں چھپنے کے لیے دے دیا۔‘‘ اور وہ 1948 کے شمارے میں شائع ہوگیا۔

اے حمید نے فکشن لکھا اور خاکے اور یادوں پر مشتمل کتابیں‌ بھی جو بہت مقبول ہوئیں۔ ان میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں