فارسی کی کہاوت ہے ہَر کمالے را زوال اور اس عبرت سرا میں عروج و زوال کی ان گنت داستانیں، بلندی اور پستی کی بے شمار کہانیاں ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ اگر بات کریں فلم انڈسٹری کی تو کئی پری چہرہ آئے گئے اور ان کا پُرشباب دور نہایت شان دار طریقے سے تمام ہوا، لیکن ان میں چند ایسے ستارے بھی تھے جنھیں یا تو زمانہ سازی نہ آئی یا پھر وہ وقت کی ستم ظریفی کا نشانہ بنے۔ اے شاہ شکار پوری بھی ایسا ہی نام ہے جنھیں فراموش کردیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد فلمی دنیا کے ابتدائی دس، پندرہ برسوں میں تین مزاحیہ اداکاروں نے خوب نام کمایا اور یہ وہ کامیڈین تھے جنھیں فلموں کی کام یابی کی ضمانت تصوّر کیا جاتا تھا۔ انہی میں سے ایک اے شاہ شکار پوری تھے۔ ان کی فلمی دنیا میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلمی پوسٹروں پر ان کی تصویر نمایاں اور نام جلی حروف میں لکھا جاتا تھا۔ اپنے دور کے یہ مقبول کامیڈین اپنے زمانۂ عروج میں لاہور کے ایک شان دار مکان میں رہا کرتے تھے، لیکن آخری عمر میں وہ کرائے دار کے طور پر ایک تنگ کوٹھڑی میں رہنے پر مجبور تھے۔
اے شاہ شکار پوری کے ابتدائی حالاتِ زندگی کا علم تو بہت کم ہی کسی کو ہوسکا، لیکن کوئی کہتا ہے کہ وہ 1906ء میں پنجاب کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے تھے اور بعض سوانحی خاکوں لکھا ہے کہ وہ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور 1910ء میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کا اصل نام عبدُاللّطیف شاہ تھا اور فلمی دنیا میں انھیں اے شاہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ان کے نام کے ساتھ "شکار پوری” کیوں لکھا گیا، اس بارے میں کہتے ہیں کہ 1947ء میں "مسٹر شکار پوری” ریلیز ہوئی تھی اور اس میں اے شاہ کا نام بطور اداکار، ہدایت کار اور نغمہ نگار شامل تھا، ٹائٹل رول بھی اے شاہ نے نبھایا تھا۔ غالباً اسی فلم کے بعد شکار پوری ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔ اسی سے یہ مغالطہ پیدا ہوا کہ وہ سندھ کے مشہور شہر شکار پور کے باسی تھے۔
وہ اتنے مقبول کامیڈین تھے کہ درجنوں فلموں کی کہانیاں ان کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھوائی گئیں، اور اے شاہ نے ان میں ٹائٹل رولز کیے۔ پھر وہ وقت آیا جب کوئی پروڈیوسر، ڈائریکٹر اے شاہ کو فلم میں سائن نہیں کرتا تھا، اور وہ مکمل طور پر نظر انداز کردیے گئے، کیوں کہ وقت بدل چکا تھا اور لہری، رنگیلا، منور ظریف کا شہرہ تھا اور انہی کے نام پر فلمیں کام یاب ہونے لگی تھیں۔
اے شاہ شکار پوری کی بیوی ان پڑھ اور عام سی گھریلو عورت تھیں جن کے بطن سے انھیں بیٹے کی مسرّت نصیب ہوئی تھی۔ جب اے شاہ کو فلموں میں کام ملنا بالکل بند ہوگیا تو ان کے اکلوتے بیٹے امانت نے مزنگ بازار کے چھور پر جہاں سمن آباد کا پہلا گول چکر آتا ہے، پتنگوں کی دکان کھول لی۔ اے شاہ بھی دکان کے باہر کرسی پر بیٹھے نظر آتے۔ یہی دکان ان کی روزی روٹی کا اکلوتا ذریعہ تھی۔ وہ لاہور کے علاقے سمن آباد کا شان دار مکان چھوڑ چکے تھے اور اب نواں مزنگ میں ڈیڑھ مرلے کے ایک کھولی ٹائپ مکان میں رہنے لگے تھے۔ یہ گھر کیا تھا، ایک ڈبہ نما کمرہ تھا جس میں ایک چارپائی رکھنے کے بعد دو تین آدمیوں کے بیٹھنے کی بمشکل گنجائش نکل آتی تھی۔
اے شاہ نے منفی اور ولن ٹائپ کے سنجیدہ سماجی کرداروں کو مزاحیہ انداز میں بخوبی نبھایا۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اداکاری اور فلم سازی کے انھوں نے نغمہ نگاری بھی کی۔ ان کا تخلّص عاجز تھا۔ اے شاہ کے فلمی سفر کا آغاز تقسیمِ ہند سے قبل 1934ء میں ریلیز ہونے والی فلم فدائے توحید سے ہوا تھا۔ انھوں نے اُس دور میں متعدد فلموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ پاکستان میں اے شاہ کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم نوکر تھی جو 1955ء کی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اسی سال کی ایک فلم حقیقت بھی تھی جس میں وہ پہلی اور آخری بار فلم ساز، ہدایت کار، نغمہ نگار اور اداکار کے طور پر نظر آئے لیکن کام یاب نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے درجنوں فلموں میں بطور اداکار کام کیا۔ 1963ء اور 1966ء میں انھوں نے سماجی موضوعات پر بنائی گئی فلموں چاچا خوامخواہ اور چغل خور میں ٹائٹل رول کیے۔اے شاہ کی اپنی ایک فلم منشی سب رنگ بھی تھی جو ریلیز نہیں ہو سکی تھی۔
فلمی دنیا سے متعلق مضامین کے مطابق اے شاہ کی آخری پنجابی فلم اک نکاح ہور سہی تھی اور یہ بات 1982ء کی ہے۔ بطور کامیڈین ان کی یادگار پاکستانی فلموں میں حمیدہ، نوکر، سلمیٰ، موج میلہ، چوڑیاں، ڈاچی، نائلہ، جی دار، لاڈو، جند جان شامل ہیں۔
وہ پچاس کی دہائی کے وسط تک بھارت میں رہے اور پھر ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ اے شاہ شکار پوری نے فلم ”بابل” میں دلیپ کمار کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔
پاکستانی فلموں کے اس کام یاب مزاحیہ اداکار نے 21 دسمبر 1991ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔