جمعہ, مارچ 14, 2025
اشتہار

پارو: جب چونی لال نے ایک طوائف کو فلم میں کاسٹ کیا

اشتہار

حیرت انگیز

پارو دیوی کا یہ شخصی خاکہ اور اس سے جڑے واقعات معروف افسانہ نگار اور کہانی نویس سعادت حسن منٹو کے قلم سے نکلے ہیں۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سعادت حسن منٹو ایک فلم کمپنی کے ملازم تھے اور ایک پروپیگنڈہ فلم کا اسکرپٹ لکھنے کا کام انھیں سونپا گیا تھا۔ وہیں انھیں ایک روز پارو نام کی یہ لڑکی نظر آتی ہے جسے اس پروپیگنڈہ فلم کی سائیڈ ہیروئن کے طور پر کام دیا گیا تھا۔ منٹو لکھتے ہیں:

مکرجی سے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ ایک عورت ٹیسٹ کے لیے آج آنے والی ہے۔‘‘ کیمرہ اور ساؤنڈ ٹیسٹ کیا گیا، جسے ہم نے پردے پر دیکھا اور سنا اور اپنی اپنی رائے دی۔ مجھے، اشوک اور واچا کو وہ بالکل پسند نہ آئی، اس لیے کہ اس کی جسمانی حرکات ’’چوبی‘‘ تھیں۔ اس کے اعضا کی ہر جنبش میں تصنع تھا۔ مسکراہٹ بھی غیر دل کش تھی، لیکن پائی اس پر لٹو ہو گیا۔ چنانچہ اس نے کئی مرتبہ اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی اور مکر جی سے کہا ’’ونڈر فل اسکرین فیس ہے۔‘‘

"دَتّا رام پائی فلم ایڈیٹر تھا۔ اپنے کام کا ماہر۔ فلمستان چونکہ ایسا ادارہ ہے جہاں ہر شعبے کے آدمی کو اظہارِ رائے کی آزادی تھی، اس لیے دِتا رام پائی وقت بے وقت اپنی رائے سے ہم لوگوں کو مستفید کرتا رہتا تھا اور خاص طور پر میرے تمسخر سے دوچار ہوتا تھا۔ ہم لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، لیکن ایس مکر جی نے اس عورت کو جس کا نام پارو تھا، پراپیگنڈہ فلم کے ایک رول کے لیے منتخب کر لیا چنانچہ رائے بہادر چونی لال نے فوراً اس سے ایک فلم کا کنٹریکٹ معمولی سی ماہانہ تنخواہ پر کر لیا۔”

"اب پارو ہر روز اسٹوڈیو آنے لگی۔ بہت ہنس مکھ اور گھلّو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ میرٹھ اس کا وطن تھا جہاں وہ شہر کے قریب قریب ہر رنگین مزاج رئیس کی منظورِ نظر تھی۔ اس کو یہ لوگ میرٹھ کی قینچی کہتے تھے، اس لیے کہ وہ کاٹتی تھی اور بڑا مہین کاٹتی تھی۔ ہزاروں میں کھیلتی تھی۔ پَر اسے فلموں میں آنے کا شوق تھا جو اسے فلمستان لے آیا۔”

"جب اس سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ حضرت جوشؔ ملیح آبادی اور مسٹر ساغرؔ نظامی بھی اکثر اس کے ہاں آیا جایا کرتے تھے اور اس کا مجرا سنتے تھے۔ اس کی زبان بہت صاف تھی اور جلد بھی، جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔

صبح اسٹوڈیو آئی۔ نہائی دھوئی، صاف ستھری، اُجلی، سفید یا ہلکے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس، کسی صابن کا اشتہار معلوم ہوئی۔ شام کو جب گھر روانہ ہوتی تو دن گزرنے کے باوجود گرد و غبار کا ایک ذرّہ تک اس پر نظر نہ آتا۔ ویسی ہی تر و تازہ ہوتی جیسی صبح کو ہوتی۔”

"دتاّ رام پائی اس پر اور زیادہ لٹو ہو گیا۔ شوٹنگ شروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے اسے فراغت ہی فراغت تھی۔ چنانچہ اکثر پارو کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول رہتا۔ معلوم نہیں وہ اس کے بھونڈے اور کرخت لہجے اور اس کے اوندھے سیدھے، میلے دانتوں اور اس کے اَن کٹے میل بھرے ناخن کو کیسے برداشت کرتی تھی۔ صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ طوائف اگر برداشت کرنا چاہے تو بہت کچھ برداشت کر سکتی ہے۔”

"پراپیگنڈہ فلم کی کہانی لکھنے کی دشواریاں وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے کبھی ایسی کہانی لکھی ہو۔ سب سے زیادہ مشکل میرے لیے یہ تھی کہ مجھے پارو کو، اس کی شکل و صورت، اس کے قد اور اس کی فنی کمزوریوں کے پیشِ نظر اس کہانی میں داخل کرنا تھا۔ بہرحال بڑی مغز پاشیوں کے بعد تمام مراحل طے ہو گئے۔ کہانی کی نوک پلک نکل آئی اور شوٹنگ شروع ہو گئی۔ ہم نے باہم مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ جن مناظر میں پارو کا کام ہے وہ سب سے آخر میں فلمائے جائیں تاکہ پارو فلمی فضا سے اور زیادہ مانوس ہو جائے اور اس کے دل و دماغ سے کیمرے کی جھجک نکل جائے۔”

"کسی منظر کی بھی شوٹنگ ہو، وہ برابر ہمارے درمیان ہوتی۔ دتا رام پائی، اب اس سے اتنا کھل گیا تھا کہ باہم مذاق بھی ہونے لگے تھے۔ پائی کی یہ چھیڑ چھاڑ مجھے بہت بھونڈی معلوم ہوتی۔ میں پارو کی عدم موجودگی میں اس کا تمسخر اڑاتا۔ کم بخت بڑی ڈھٹائی سے کہتا ’’سالے تو کیوں جلتا ہے۔‘‘”

"جیسا کہ میں اس سے پہلے بیان کر چکا ہوں، پارو بہت ہنس مکھ اور گھلو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن کے لیے وہ اونچ نیچ سے بے پروا بڑے تپاک سے ملتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت تھوڑے عرصے میں مقبول ہو گئی۔ نچلے طبقے نے اسے احتراماً پارو دیوی کہنا شروع کر دیا۔ یہ اتنا عام ہوا کہ فلم کے عنوانات میں پارو کے بجائے پارو دیوی لکھا گیا۔”

"دتاّ رام پائی نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ کچھ ایسی ٹپس لڑائی کہ ایک دن اس کے گھر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھا۔ پارو سے اپنی خاطر مدارت کرائی اور چلا آیا۔ اس کے بعد اس نے ہفتے میں ایک دو مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ یہاں جا دھمکنا شروع کر دیا۔”

"پارو اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا مرد رہتا تھا۔ قد و قامت میں اس سے دو گنا۔ میں نے دو تین مرتبہ اسے پارو کے ساتھ دیکھا۔ وہ اس کا پتی دیو کم اور ’’تھامو‘‘ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔”

"پارو میں عام طوائفوں ایسا بھڑکیلا چھچھورا پن نہیں تھا۔ وہ مہذب محفلوں میں بیٹھ کر بڑی شائستگی سے گفتگو کر سکتی تھی۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ میرٹھ میں اس کے یہاں آنے جانے والے ایرے غیرے نتھو خیرے نہیں ہوتے تھے۔ ان کا تعلق سوسائٹی کے اس طبقہ سے تھا جو ناشائستگی کی طرف محض تفریح کی خاطر مائل ہوتا ہے۔”

"پارو اب اسٹوڈیو کی فضا میں بڑی اچھی خاصی طرح گھل مل گئی تھی۔ فلمی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت یا لڑکی نئی ایکٹرس بنتی ہے، تو اس کو کوئی نہ کوئی فوراً دبوچ لیتا ہے۔ جیسے کہ وہ گیند ہے جسے بلے کے ساتھ کسی نے ہٹ لگائی ہے اور فیلڈ میں کھڑے کھلاڑی اس تاک میں ہیں کہ وہ ان کے ہاتھوں میں چلی آئے۔ لیکن پارو کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ فلمستان دوسرے نگار خانوں کے مقابلے میں بہت حد تک ’’پاکباز‘‘ تھا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارو کو کوئی اتنی جلدی نہیں تھی۔”

"شوٹنگ جاری تھی۔ ویرا فلم کی ہیروئن تھی۔ سائیڈ ہیروئن کا رول پارو نے ادا کرنا تھا۔ اسے برما کے کسی آزاد جنگلی قبیلے کی ایک شوخ وشنگ، تیز و طرار لڑکی کا روپ دھارنا تھا۔ جوں جوں اس کے مناظر فلمائے جانے کا وقت آتا گیا، میرے اندیشے بڑھتے گئے۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ امتحان میں پوری نہیں اُترے گی اور ہم سب کی کوفت کا موجب ہو گی۔”

"ہم سب نے بڑی کوشش کی کہ اس کا تصنع اور ’’چوبی پن‘‘ کسی نہ کسی طریقے سے دور ہو جائے، مگر ناکام رہے۔ شوٹنگ جاری رہی اور وہ بالکل نہ سدھری۔ اس کو کیمرے اور مائیک کا کوئی خوف نہیں تھا، مگر سیٹ پر وہ حسبِ منشا اداکاری کے جوہر دکھانے سے قاصر تھی۔ اس کی وجہ میرٹھ کے مجروں کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی۔ بہرحال اتنی امید ضرور تھی کہ وہ کسی نہ کسی روز منجھ جائے گی۔”

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں