تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

برصغیر میں 166 سال قبل آج پہلی بار ٹرین چلی تھی

ریلوے آج برصغیر پاک و ہند میں سفر کا سب سے اہم اور سستا ذریعہ ہے ، کیا آ پ جانتے ہیں کہ اس خطے میں پہلی بار ٹرین 166 سال قبل آج کے دن چلی تھی۔

سنہ 1857 کی جنگ آزادی تک برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی اور حکومتِ برطانیہ اس کے معاملات کمپنی کے ذریعے ہی طے کیا کرتی تھی۔1849 میں برطانوی پارلیمنٹ میں ایک ایکٹ منظور کیا گیا جس کے ذریعے برصغیر میں ریلوے کا نظام قائم کرنے ایک کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

گریٹ انڈین پینن سیولا  ریلوے (عظیم جزیرہ نما ہند ریلوے) کے نام سے یہ کمپنی 50 ہزار پاؤنڈ کے شراکتی سرمائے سے شروع کی گئی تھی۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہد ہ کیا اور ریلوے لائن کی تعمیر شروع کردی۔

ابتدائی طور پر 1300 میل لمبائی کی ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ تیار کیا گیا  جس کا مقصد بمبئی ( ممبئی) کو مدراس کے شہر چنائے سے جوڑنا تھا۔ بمبئی کی طرح ہندوستان کے مشرقی علاقوں میں چنائے بھی ایک اہم پورٹ کا حامل تھا۔ ابتدائی روٹ میں  پونا، ناسک، اورنگ آباد، احمد نگر، شعلہ پور، ناگ پور، امراوتی اور حیدر آباد شامل تھے۔

اس منصوبے سے عوام کو تو ایک اہم سفری ذریعہ میسر آیا لیکن اس کے قیام  کا اصل مقصد کاٹن ،  سلک ، افیون، شکر اور مصالحوں کی تجارت کو فروغ دینا تھا۔

 لائن بچھنا شروع ہوئی اوربالاخر بمبئی سے تھانے شہرتک کا کام مکمل ہوا تو آج سے 166 سال قبل آج کے دن یعنی 16 اپریل 1853 کو برصغیر میں پہلی مسافر ٹرین بمبئی کے بوری بندر اسٹیشن سے روانہ ہوکرتھانے کے اسٹیشن پہنچی۔ یہ ایک تاریخ ساز دن تھا۔ اس سفر میں کل 57 منٹ لگے اور ٹرین نے 21 میل کا فاصلہ طے کیا تھا۔

اس سفر میں کل 400 مسافر تھے اور تین لوکو موٹو انجن جن کے نام سلطان ، سندھ اور صاحب تھے ، 14 بوگیوں پر مشتمل ریل گاڑی کو کھینچ کر لے گئے تھے ۔

اگلے مرحلے میں سنہ 1954 میں تھانے سے کلیانہ  تک لائن بچھائی گئی۔سنہ 1856 میں یہ لائن کیمپولی تک پہنچی اور اس کے بعد 1858 میں ریلوے سے پونے تک کا سفر بھی ممکن ہوگیا۔ جہاں یہ لائن تجارتی بنیادوں پر استعمال ہورہی تھی، وہیں مسافر بھی اس سے مستفید ہورہے تھے۔

سنہ 1961 میں یہ لائن  تھل گھاٹ تک جا پہنچی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور لائن کلیانہ سے بھور گھاٹ ،شعلہ پقور اور رائے چور سے ہوتی ہوئی سنہ 1868 میں مدراس تک جا پہنچی جو کہ اس کا مرکزی اسٹیشن تھا۔

اسی اثنا میں سندھ ریلوے کا کام بھی شروع ہوچکا تھا اور سنہ 1858 میں کراچی سے کوٹری  کام شروع کیا گی اور 108 میل کے اس فاصلے پر تین سال میں کام مکمل کرکے سنہ 1861 میں دونوں شہروں کو  براستہ ریلوے لائن منسلک کردیا گیا۔ کراچی کا سٹی ریلوے اسٹیشن اس شہر کا سب سے قدیم اسٹیشن ہے اور برطانوی ہندوستان کا آخری اسٹیشن بھی اسی کو تصور کیا جاتا  تھا۔

بے شک ریلوے کی آمد  کے ساتھ ہی برصغیر میں انقلابی تبدیلیوں کا دور شروع ہوگیا۔ جہاں ایک جانب تجارت کو سرعت ملی وہیں عوام کو بھی سفری سہولیات میسر آئیں اور پورا خطہ آنے والی چند دہائیوں میں ریلوے لائن کے ذریعے آپس میں منسلک ہوگیا۔

اس زمانے میں استعمال ہونے والے اسٹیم لوکو موٹو انجن آج پوری دنیا میں صرف نیل گری پہاڑی سلسلے کی مقامی ریلوے لائن پر چل رہے ہیں، اس کے علاوہ باقی تمام انجن ریلوے میوزمز کا حصہ بن چکے  ہیں۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں