ایک گرو اور اس کا چیلا محوِ سفر تھے کہ ایک ملک کے سب سے بڑے شہر کے قریب شام ان کے سَر پر آ گئی۔ دونوں کئی میل کی مسافت طے کرچکے تھے۔ اب اگرچہ انھیں آرام کرنے کی ضرورت تھی۔ مگر گرو مسلسل آگے بڑھ رہا تھا اور چیلے کو محسوس ہورہا تھا کہ وہ کہیں قیام نہیں کرے گا۔
چیلے نے یہ دیکھا تو اپنے گرو سے کہا، حضرت یہاں رات گزار کر صبح سفر پر روانہ ہو جائیں گے، ویسے بھی میں تھک گیا ہوں اور بھوک بھی زوروں کی ہے۔
گرونے اپنے اس خدمت گزار کو ٹوکا اور بولا، چلتے رہو کسی اور جگہ رکیں گے، مجھے یہاں نحوست نظر آرہی ہے۔ مگر چیلا جو اس کا بڑا لاڈلا اور ضدی بھی تھا، گڑ گڑانے لگا کہ حضور اب اور نہیں چلا جاتا، رک جائیے۔
گرو نے اس کو یوں گڑگڑاتے پایا تو رحم کھا کر خیمہ لگانے کی ہدایت کردی۔ ساتھ ہی کہا کہ قریبی آبادی سے کھانے پینے کا سامان لے آؤ، ہم یہاں سے صبح سفر پر نکلیں گے۔
چیلے نے فوراََ خیمہ گاڑ دیا اور قریبی آبادی میں ایک دکان پر پہنچا۔ اس نے دکان دار سے پوچھا، ماچس کتنے کی ہے؟ دکان دار نے ایک آنہ قیمت بتائی تو اس نے وہاں لٹکے ہوئے گوشت کے نرخ پوچھے۔ دکان دار نے کہا یہ ایک سیر گوشت بھی ایک آنہ کا ہے۔ چیلے نے ایک کلو نمک کی قیمت دریافت کی تو معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک آنہ میں مل جائے گا۔ اب اس نے ایک سیر گھی کا بھاؤ پوچھا اور جواب میں دکان دار نے پھر ایک آنہ کہا تو چیلا حیران و متجسس نظر آیا اور سوچنے لگا کہ یہ کیسا عجیب شہر ہے کہ جہاں تمام چیزوں کا بھاؤ یکساں ہے۔ وہ خوشی خوشی سامان لے کر گرو کے پاس پہنچا اور کہا حضور اب ہم مستقل یہیں قیام کریں گے، آپ اللہ اللہ کیا کریں اور میں آپ کی خدمت۔ یہاں سب کچھ سستا ہے۔ گرو نے اسے ڈانٹا اور حکم دیا فوراََ خیمہ اکھاڑو۔ اورجلدی نکلو، عنقریب یہاں کوئی عذاب آنے والا ہے۔ گرو کی بات سن کر اس کے لاڈلے چیلے نے کہا، حضور آپ بھی کمال کرتے ہیں، ہم نہیں جائیں گے، میں آپ کا پرانا خدمت گزار ہوں، میری مانیں یہیں رہیں۔
گرو کو واقعی اپنا یہ خادم بہت عزیز تھا۔ وہ کچھ سوچ کر چپ ہوگیا اور وہیں مستقل قیام کرلیا۔ اب چیلا روزانہ شہر جاتا اور اپنی پسند کا سامان خرید لاتا۔ وہ دن بدن فربہ اور اس کی گردن موٹی ہو رہی تھی۔ ایک دن چوروں نے ایک کچے مکان میں نقب لگائی چوری کر کے جب نکل رہے تھے تو دیوار گر گئی۔ ایک چور دیوار کے نیچے آکر موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ مزے کی بات دیکھو کہ چور خود ہی بادشاہ کی عدالت میں مقدمہ لے کر پیش ہوئے اور مالک مکان کو طلب کر کے سزا دینے کا مطالبہ کردیا۔ اس کا مؤقف تھا کہ مکان کی کمزور دیوار گرنے کی وجہ سے ان کے ایک ساتھی کی جان چلی گئی۔ مالک مکان پیش ہوا تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم نے اتنی کمزور دیوار کیوں بنائی کہ ایک معصوم کی جان چلی گئی۔ مالک مکان نے جان بچانے کے لئے ذمہ داری مستری پر ڈال دی۔ حکم ہوا کہ مستری کو پیش کیا جائے۔ اس سے بادشاہ نے کہا کہ تمہاری بنائی ہوئی کمزور دیوار گرنے کی وجہ سے ایک معصوم شہری کی جان چلی گئی اور حکم دیا کہ اس ظالم مستری کو فوراََ پھانسی دے دی جائے۔
مستری گڑگڑایا اور خوشامد کرتے ہوئے بولا حضور کا اقبال بلند ہو، یہ گارا بنانے والے مزدور کا جرم ہے، اس نے پتلا گارا بنایا جس کی وجہ سے کمزور دیوار بنی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ مزدور کو پیش کیا جائے۔ مزدور نے ایک عذر پیش کیا کہ حضور ایک ہاتھی میری جانب دوڑا چلا آتا تھا، میں گھبرا گیا اور جان بچانے کے لئے بھا گ نکلا۔ گھبراہٹ میں پانی کا نل کھلا رہ گیا جس کی وجہ سے گارا پتلا ہو گیا۔ اب بادشاہ نے ہاتھی کے مالک کو طلب کرلیا۔ دربار میں رتھ بان ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور بتا رہا تھا کہ حضور سنار کی بیوی سونے کے زیورات سے لدی ہاتھی کے سامنے آگئی تھی، ہاتھی کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ہاتھی بوکھلا کر بھاگ نکلا۔ میں اسے سنبھال نہیں پایا۔ اب سنار کو پیش کیا گیا اور سنار کوئی جواب نہ دے پایا۔
بادشاہ نے کہا کہ جرم ثابت ہوچکا ہے اور فوراََ سنار کو پھانسی دے دی جائے۔ سپاہی آئے اور سنار کو پکڑ کر جلاد کے پاس لے گئے۔ جلاد نے پھندا اس کی گردن میں ڈالا تو پریشان ہوا کہ وہ اس کی کمزور و نحیف گردن میں فٹ نہیں آ رہا تھا۔ بادشاہ کو اس کی اطلاع دی گئی تو حکم ہوا کہ آبادی میں کوئی ایسا انسان دیکھو جس کی گردن میں پھندا فٹ آئے تاکہ شاہی حکم کی تعمیل میں تاخیر نہ ہو۔ سپاہی موٹی گردن والے کسی بھی انسان کو ڈھونڈتے ہوئے چیلے تک پہنچ گئے۔ وہ اس شہر میں کھا پی کر پھول چکا تھا اور اس کی گردن کافی موٹی ہوچکی تھی۔ سپاہیوں نے اسے جکڑ لیا تو چیلا چیخا کہ حضور مجھے بچائیں۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ گرو نے کہا کہ میں نہ کہتا تھا یہاں سے نکل چلو، کوئی عذاب آنے والا ہے۔
خیر، اب گرو جسے اپنا وہ خادم بہت عزیز تھا، پریشان ہوا، مگر ایک ترکیب ذہن میں آہی گئی۔اب صورت حال یہ تھی کہ چیلا پھانسی گھاٹ پر پھندا پکڑے کہہ تھا کہ مجھے پھانسی لگائیں۔یہ میرا ہی حق ہے۔ اور گرو اپنی جانب پھانسی کا پھندا کھینچتا اور کہتا کہ وہ اپنے سوا کسی اور کو یہ سعادت حاصل نہ کرنے دے گا۔ صورت حال بہت عجیب ہو چکی تھی۔ دو لوگ بیک وقت پھانسی کا پھندا پکڑے پھانسی چڑھ جانے کی ضد کر رہے تھے۔ سپاہی اور جلاد سب حیران ہی نہیں پریشان بھی تھے۔ یہ دونوں ان کے گلے ہی پڑ گئے تھے۔ مشاورت کے بعد انھوں نے بادشاہ کو اس کی اطلاع دی۔ بادشاہ نے پھانسی گھاٹ پر جانا پسند کیا اور ان دونوں سے پوچھا کہ وہ کیوں پھانسی لگنا چاہتے ہیں۔
گرو نے موقع غنیمت جانا اور اپنا کام دکھا دیا۔ وہ بولا، حضور! یہ وقتِ قبولیت ہے، اس وقت جو بھی پھانسی گھاٹ پر جھولے گا، وہ بخشا جائے گا اور بہت سی نعمتیں اس کی منتظر ہیں۔
یہ سنا تو بادشاہ نے کہا، میرے ہوتے ہوئے کوئی پھانسی چڑھ کر بخشش اور جنت کیسے پا سکتا ہے۔ یہ بادشاہ کا حق ہے۔ کچھ دیر بعد ہی بادشاہ پھانسی کے پھندے پر جھول رہا تھا۔
یوں وہ عجیب و غریب بادشاہ اپنے انجام کو پہنچا اور اس کے بعد شہر میں کوئی چیز ایک آنہ کی نہ رہی بلکہ ہر شے کے اس کی خاصیت اور طلب کے مطابق نرخ مقرر ہوئے۔ دنیا کا نظام اسی طرح چلتا ہے جس میں اجتماعی فائدہ ہو۔ الٹے سیدھے اور دکھاوے کے فیصلے اور اقدامات سے قومیں نہیں سدھرتیں۔