کراچی:اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہاہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت مستقبل میں اشیا خورونوش کے درآمدی بل میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک سے جاری رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پانی کی قلت، زرعی زمین کی خرابی، موسمیاتی تبدیلی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث پاکستان میں غذائی قلت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق غذائی قلت کے باعث درآمدی بل بھی بڑھ رہا ہے، 12 سال قبل اشیاءخورونوش کا درآمدی بل جو 2 ارب 70 کروڑ ڈالر تھا، مالی سال 2018 میں 6 ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غذائی قلت سے پاکستان کو سالانہ 7 ارب 60 کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق حکومت اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں استحکام کے لئے ہر سال 100 ارب روپے کی سبسڈی بھی دے رہی ہے۔
نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے غذائی قلت سے متعلق ایک مسودہ بھی تیار کیا مگر بدقسمتی سے اب تک اس پر عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوسکا جبکہ غذائی قلت سے بچاؤ کے لئے بنائے گئے اس مسودے میں آبادی میں اضافے کے عنصر کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ نیشنل نیوٹریشن سروے 2018-19 مکمل کیا گیا تھا جس کے مطابق ملک میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، سندھ، فاٹا اور بلوچستان میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ہوا، اس نیوٹریشن سروے میں پہلی بار ضلعی سطح پر اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں۔
مجموعی طور پر 1 لاکھ 15 ہزار 600 گھرانے نیشنل نیوٹریشن سروے کا حصہ تھے، جس کے لیے برطانیہ نے 9 ملین ڈالر فنڈز فراہم کیا، اور اس سروے کی سربراہی ڈاکٹر بصیر اچکزئی نے کی۔
سروے میں غربت کی شرح، صاف پانی تک رسائی کو پرکھا گیا، اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا، سروے کی تکمیل کے بعد وزارت صحت، یونی سیف اور تھرڈ پارٹی نے بھی اس کا جائزہ لیا ہے۔
ذرایع کے مطابق سروے میں خواتین اور بچوں سے خون اور دیگر اعضا کے نمونے لیے گئے، ان کا وزن، قد، بازو کی پیمایش کی گئی، سروے میں کم عمر بچوں، بچیوں پر خصوصی توجہ دی گئی، حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی ماؤں پر بھی خصوصی توجہ دی گئی تھی ۔