تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

کرونا وبا: پائلٹس ریل گاڑیاں چلانے پر مجبور

برلن: کرونا وبا نے جہاں ایک طرف دنیا بھر میں ہوابازی صنعت کو شدید طور پر متاثر کیا، وہاں جہاز اڑانے والے پائلٹس بھی اس بحران سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ انھیں فضا سے اتر کر زمین پر پروفیشنل ڈرائیونگ شروع کرنی پڑی۔

تفصیلات کے مطابق متعدد ممالک میں سیکڑوں پائلٹس اپنی پسندیدہ ترین ملازمت سے محرومی کے بعد ریل گاڑی چلانے پر مجبور ہو چکے ہیں، جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ میں ریلوے کمپنیاں، ہانگ کانگ میں پبلک ٹرانسپورٹ اور آسٹریلیا میں چارٹر بس آپریٹر پروفیشنل ڈرائیورز کی شدت سے تلاش میں ہیں، جسے دیکھتے ہوئے ایئر لائن پائلٹ اپنا پیشہ تبدیل کر رہے ہیں۔

جرمن میڈیا رپورٹ کے مطابق جرمن ریلوے کمپنی ڈوئچے بان کو کرونا وبا سے قبل ہی ٹرین ڈرائیورز کی کمی کا سامنا تھا، بتایا جا رہا ہے کہ اب شاید یہ بے روزگار ایئر لائن پائلٹس ریلوے کمپنیوں میں ٹرین ڈرائیورز کی کمی کو پورا کر سکیں گے۔

اس سلسلے میں ریلوے کمپنی نے بتایا کہ ان کو اب تک 1500 پائلٹس اور فضائی عملے کے اراکین کی طرف سے ملازمت کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، جن میں سے اب تک 280 افراد کو ملازمت فراہم کی جا چکی ہے، جن میں 55 پائلٹس ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پائلٹس عام طور پر تربیت یافتہ اور قابل اعتماد ہوتے ہیں، اس لیے ٹرین ڈرائیور شعبے کے لیے بھی ایسی ہی پیشہ وارانہ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔

تاہم ایئر لائن پائلٹ اور ٹرین ڈرائیور کی آمدن میں فرق بھی ہوتا ہے، جرمن ریلوے کمپنی کے مطابق ایک تربیت یافتہ ٹرین ڈرائیور کی سالالہ آمدن 44 سے 52 ہزار یورو تک (ٹیکس کی کٹوتی کے بغیر) ہوتی ہے، جس میں اضافی بونس بھی شامل ہوتے ہیں، جب کہ لفتھانزا کا ایک پائلٹ اپنی ملازمت کے پہلے سال کے دوران 65 ہزار یورو تک (ٹیکس کی کٹوتی کے بغیر) کماتا تھا۔

واضح رہے 20 سالہ تجربہ رکھنے والے پائلٹ کی سالانہ آمدن اس سے دوگنی ہوتی ہے، جب کہ کرونا وبا کے بحران کے سبب بہت ساری ایئر لائن کمپنیوں نے پائلٹس کی تنخواہوں میں بھی کمی کی تھی۔

جرمن پائلٹس کی یونین ’کاک پٹ‘ کے ترجمان یانسی شمٹ کا کہنا تھا کرونا بحران کے دوران ہمارا عام طور پر سب کو یہی مشورہ ہوتا ہے کہ اپنے ’پلان بی‘ پر غور کریں، اور ایسا لگتا ہے کہ پائلٹس کے لیے پلان بی کا مطلب ریل گاڑی، ٹرام یا پھر بس چلانا ہی رہ گیا ہے۔

Comments

- Advertisement -