سیاست میں نہایت متعصبانہ اور متشدد نظریہ رکھنے والے بھارتی ہندو رہنما نریندر دامودرداس مودی ایک طرف ’انڈیا‘ کا نام ’جمہوریہ بھارت‘ سے بدلنا چاہتے ہیں، دوسری طرف خطے میں سفارتی طاقت کے حصول کے بھی شدت سے متمنی ہیں۔
نئی دہلی میں آج ہفتہ 9 ستمبر سے شروع ہونے والے جی 20 اجلاس نے یکایک مودی کو عالمی سطح پر نمایاں کر دیا ہے، اسی لیے اسے مودی کا ’سفارتی ورلڈ کپ‘ بھی قرار دیا جا رہا ہے، جس میں خطے کے دو اہم پلیئرز نے شرکت سے انکار کر دیا ہے، تاہم امریکی صدر اور سعودی ولئ عہد اور وزیر اعظم کی شرکت بلاشبہ اہم واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ 40 برسوں میں یہ بھارت کا ایک بڑا سفارتی ’میچ‘ ہے، جس میں عالمی رہنما شرکت کر رہے ہیں اور جس نے مودی سرکار کو خبروں کی زینت بنا دیا ہے، پچھلی بار 1983 میں نئی دہلی میں دولت مشترکہ کا سربراہی اجلاس اور غیر وابستہ ممالک کی تحریک (NAM) کے اجلاس کا انعقاد ہوا تھا۔
مہینوں کی تیاری کے بعد 19 ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل اس ’’گروپ آف ٹوینٹی‘‘ کے اجلاس کا انعقاد تو عمل میں آ گیا ہے، اور اگر چہ اس کا اپنا ایک ایجنڈا ہے، جس میں موسمیاتی مالیات اور قرضوں کی معافی سے لے کر فوڈ سیکیورٹی اور صحت عامہ تک سب کچھ شامل ہے، تاہم مودی سرکار کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی سفارتی طاقت کا مظاہرہ کرے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو ایسی عالمی توجہ اور کسی صورت نہیں مل سکتی تھی، جتنی توجہ انھیں اس سمٹ کے ذریعے مل رہی ہے، جس میں انھیں یہ ہدف ملا ہے کہ وہ گروپ کے لیے اگلے برس کے ایک روڈ میپ کی خاطر تمام ممالک کو سربراہی اجلاس کے اختتام پر کسی مشترکہ معاہدے پر راضی کرے۔
اس گروپ کے اجلاس کی میزبانی ملنا بلاشبہ بھارت اور بالخصوص مودی سرکار کے حق میں ایک لاٹری جیسا ہے، لیکن کیا واقعی یہ لاٹری جیسا غیر متوقع عمل ہے؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اگرچہ مودی سرکار سفارتی طاقت سے مدہوش نظر آ رہے ہیں، اور طاقت کی اس فراوانی میں انھوں نے دارالحکومت نئی دہلی کو ایک چھاؤنی میں بدل ڈالا ہے، کچی آبادیاں خالی کرا دیں، اسکول اور دفاتر بند کر دیے، سڑکوں پر دکانیں بند کروائی گئیں، اور انسان تو انسان، مودی سرکار کے ’مضطربانہ‘ اقدامات کی زد میں بندر اور کتے بھی آ گئے، اور انھیں شہر میں نکلنے پر ’پابندی‘ عائد کر دی گئی۔ اس سب کے باوجود یہ سارا عمل ایک بڑے علاقائی تزویراتی صورت حال کی غمازی کر رہا ہے۔
اگر ایک طرف نریندر مودی کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ شہر میں ہر سڑک اور چوراہے پر بڑی بڑی تصاویر میں وہ نمایاں ہو رہے ہیں تو دوسری طرف امریکا اور یورپ کی نگاہیں اس وقت اس خطے کی بدلتی سیاسی اور تزویراتی صورت حال پر مرکوز ہیں۔ جس میں گزشتہ برس کے روس کے یوکرین پر حملے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس تناظر میں جی ٹوینٹی سمٹ میں امریکی و یورپی رہنماؤں کی ذوق و شوق سے شرکت ایک واضح معنی کی حامل ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ طاقتیں اب بھارت کے ذریعے خطے کی سیاست اور روس اور چین جیسی طاقتوں پر اثر انداز ہونا چاہتی ہیں۔
چناں چہ، مودی سرکار جتنی خوش ہو رہی ہے، اتنا یہ معاملہ اس کے لیے اتنا بھی آسان نہیں ہے۔ یہ سربراہی اجلاس مودی کے لیے دو دھاری تلوار کی مانند ہے، کیوں کہ خود اس گروپ میں ایک گہری تقسیم پیدا ہو چکی ہے، جس میں متعدد طاقتوں کے اپنے مسابقتی ایجنڈے ہیں۔ اسی طرح یوکرین جنگ نے بھارت کو ایک مشکل دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے، جب امریکا اور برطانیہ کی جانب سے بھارت پر شدید دباؤ تھا، تب اس نے یہ دباؤ مسترد کرتے ہوئے روس سے سستے تیل کی خریداری کا اٹل فیصلہ کیا۔ اس تناظر میں یہ سوال بہت نازک ہے کہ کیا اتوار کو مودی سرکار کسی مشترکہ معاہدے پر پہنچ سکے گی، یا مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں ناکام رہنے والا یہ پہلا G20 سربراہی اجلاس بن جائے گا؟
اس تناظر کو دیکھا جائے تو اقلیتوں کے حوالے سے مودی سرکار کی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید کی آوازیں شاید ہی تشریف لانے والے عالمی رہنماؤں تک پہنچ سکیں۔ بھارت کی ممتاز صحافی اور عالمی شہرت یافتہ ناول نگار ارون دھتی رائے نے عین موقع پر یہ انتہائی اہم آواز اٹھائی ہے کہ ’’عالمی سربراہان جی ٹوینٹی میں شرکت تو کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے بھارت میں کیا ہو رہا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا ’’بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس پر عالمی سربراہان کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ منی پور میں اقلیتی برادری کے ساتھ ہونے والے مظالم پوری دنیا نے دیکھ لیے، خواتین کو سرعام برہنہ کر کے اور تشدد کیے جانے کی آئے دن ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارتی افواج نے وادی کو ایک بدترین چھاؤنی میں بدلا، اور عالمی تنظیموں نے اس پر آواز اٹھائی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اقلیتوں کے لیے جہنم کا روپ بنے بھارت کے اس پہلو سے عالمی رہنما نگاہیں پھیر کر روس اور چین کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کو توجہ دیں گے۔
امریکا اور یورپی ممالک کا فی الوقت ایک ہی ایجنڈا ہے کہ وہ روس کو کسی طرح قابو کر سکیں، یہی کوشش انھوں نے پچھلی بار انڈونیشیا کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کی، اگرچہ مشترکہ اعلامیہ تو جاری ہوا لیکن روسی حملے پر مکمل اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ بھارت چوں کہ اس وقت خطے میں اپنی بڑھتی ہوئی سفارتی طاقت دکھانے کی کوششیں کر رہا ہے، اس لیے عالمی رہنماؤں کی کوشش ہے کہ وہ مودی سرکار کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلا دیں اور اس معاملے پر مکمل اتفاق رائے پیدا کر دیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ سرے سے مشترکہ اعلامیہ ہی جاری نہ ہو، جو عالمی رہنماؤں کی بڑی ناکامی ہوگی۔
بلاشبہ مودی سرکار اس اجلاس کو آئندہ انتخابات کے لیے سیاسی مہم کے طور پر کیش کر رہے ہیں، لیکن عالمی رہنما اپنی کوشش کی ناکامی کے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے بھی کیا انسانی حقوق کی شدید پامالی پر مبنی بھارت کے اندرونی حالات سے آنکھیں بند کرنا ضروری سمجھیں گے؟