تازہ ترین

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

وہ دن جب ایک طلسمی حقیقت نگار ہم سے جدا ہوا!

مارکیز کو ”طلسمی حقیقت نگاری“ کی اس اصطلاح سے قطعی اتفاق نہ تھا جو انہی کے لیے وضع کی گئی۔ وہ اپنی تحریروں اور اپنے اسلوب کو حقیقت نگاری کہتے تھے۔ ’تنہائی کے سو سال‘ اور ’وبا کے دنوں میں محبت‘ مارکیز کے شہرۂ آفاق ناول ہیں۔ آج نوبیل انعام یافتہ مارکیز کا یومِ وفات ہے۔

گیبریئل گارشیا مارکیز کو عصرِ حاضر کا سب سے بڑا ناول نگار کہا جاتا ہے۔ وہ دورِ حاضر کے سب سے بڑے اور قارئین کے محبوب فکشن نگار کہلائے۔ 2014 میں 87 برس کی عمر میں‌ مارکیز آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ انھیں ان کے احباب اور مداح گابو کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔

مارکیز کو 1982ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا، جب ان کی عمر لگ بھگ 55 برس تھی۔ گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ ان کی تخلیقات کا قاری ماضی، حال اور مستقبل کو ان تحریروں میں ایک ساتھ دیکھتا تھا۔ وہ واقعات کو طلمساتی انداز میں یوں گوندھتے تھے کہ قاری خود کو ان میں‌ گرفتار پاتا۔ مارکیز کے تخلیقی کام کی ایک خوبی یہ تھی وہ کسی مغربی ادیب یا مغربی روایت کے نقال نہیں بنے بلکہ اپنے حالات، مقامی کرداروں اور محسوسات، تجربات ہی کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ انھوں نے محبّت جیسے قدیم اور لافانی جذبے، خاندان اور آمریت کی دل موہ لینے والے واقعات کو کہانی میں پیش کیا۔ ان کے انوکھے موضوعات، کردار نگاری کا مخصوص انداز اور واقعات کی طلسماتی بنت نے انھیں ہم عصروں کے مقابلے میں ازحد مقبول بنا دیا۔ کارسیا مارکیز کی تقریباً تمام تحریریں اردو سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔

گابو دنیا کے مشہور ترین لاطینی امریکی ناول نگاروں میں سے ایک اور ادبی تحریک کے روح رواں تھے۔ وہ کیوبا کے مشہور راہ نما فیدل کاسترو کے قریبی دوست بھی تھے۔ مارکیز کے مشہور ناولوں کے نام یہ ہیں۔
(1967) One Hundred Year of Solitude
(1975) The Autum of the Patriarch
(1985) Love in the Time of Cholera
(2002) Living to Tell the Tale

مارکیز 1927ء میں کولمبیا کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا باپ ایک کیمسٹ تھا اور بیٹے کی پیدائش پر کاروبار کی غرض سے اپنی بیوی کے ساتھ ایک بڑے شہر میں منتقل ہوگیا تھا۔ یوں‌ مارکیز نے دادا، دادی اور آنٹی کے زیرِ سایہ تربیت پائی۔ وہ گھر میں ان بزرگوں سے مختلف قصّے اور پراسرار کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے تھے۔ ان کے یہ بڑے بہت اچھے قصّہ گو تھے اور مارکیز کو تفریح کے ساتھ گھومنے پھرنے کا بھی موقع ملتا تھا اور وہ اپنے شوق پورے کرتے تھے۔ مارکیز دراصل ہسپانوی آباد کاروں، مقامی آبادی اور سیاہ فاموں کی غلامی کے ورثے میں پروان چڑھے تھے۔ ان کے دادا ایک ریٹائر کرنل تھے۔ مارکیز نے گریجویشن کے بعد قانون کی تعلیم بھی حاصل کی، مگر پھر عملی زندگی میں‌ قدم رکھنا پڑا۔ انھوں نے ناول نگاری کا آغاز 1961 میں اپنے کنبے کے ساتھ کولمبیا سے میکسکو سٹی منتقل ہونے کے بعد کیا۔ اس دور میں مارکیز نے سخت مالی مشکلات اور کئی مسائل کا بھی سامنا کیا، لیکن ان کا قلم محبّت کی حدت اور حالات کی شدّت کے ساتھ تیزی سے کہانیاں بُننے لگا تھا اور وہ اپنے مسائل سے نمٹتے ہوئے لکھتے رہے۔ بالآخر انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی اور وہ نوبیل انعام سے بھی نوازے گئے۔ وہ ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے منسلک رہے۔ مارکیز اسے دنیا کا سب سے خوب صورت پیشہ گردانتے تھے۔ ان کی پہلی ملازمت بھی ایک اخبار کے ساتھ تھی جس نے 1947 میں ان کی پہلی مختصر کہانی شائع کی تھی۔ اس عالمی شہرت یافتہ ناول نگار کے قلم سے نکلا ہوا ایک آرٹیکل اس زمانے کے فوجی حکام کا پسند نہ آیا اور تب مارکیز کو اپنا وطن چھوڑ کر یورپ جانا پڑا۔ وہ جنیوا، روم اور پیرس میں رہے اور اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔

اس عظیم ناول نگار نے 23 برس کی عمر میں اپنا پہلا ناول لکھا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے ملک میں جاری جنگ و جدل، بدامنی اور بے چینی کے ساتھ محبّت کے جذبے اور دوسرے واقعات کو اپنی کہانیوں میں سموتے رہے۔ اس عہد ساز ادیب کی کہانیوں کے بیشتر کردار ان کے خاندان اور شہر کے باسی تھے جن کی زندگیوں کو مارکیز نے اپنے ناولوں میں نیا مفہوم دیا۔

مارکیز کی میکسیکو میں‌ موت پر فضا سوگوار ہوگئی اور ان کے مداحوں کی بڑی تعداد ان کے آخری دیدار کو پہنچی۔ دنیا بھر کے ادیبوں، فن کاروں اور سیاست دانوں نے بھی تعزیتی پیغامات میں اس عظیم ناول نگار کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

Comments

- Advertisement -