عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے شمالی غزہ کے آخری بڑے اسپتال کمال عدوان کے بارے میں ایک غمناک بیان میں کہا ہے کہ اسپتال ’اب خالی‘ ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے ہفتے کے روز کہا کہ اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد کمال عدوان اسپتال ’اب خالی‘ ہے، حملے کے نتیجے میں شمالی غزہ میں صحت کا آخری بڑا مرکز خدمات انجام دنے سے قاصر ہو گیا۔
ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ جمعہ کے اسرائیلی حملے کے بعد سے اسپتال میں ’خوف کا عالم‘ تھا، اسپتال دوبارہ میدان جنگ بن گئے ہیں، اور شمالی غزہ میں صحت کے بڑی سہولت ’’جواب دے گئی ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ کے ادارے نے کہا ’’نظامِ صحت کو منظم طریقے سے ختم کرنے اور شمالی غزہ کے 80 دنوں سے زائد محاصرے کے باعث علاقے میں موجود باقی 75,000 فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔‘‘
اسرائیل کی فوج نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اکتوبر میں شمالی غزہ میں وسیع تر کارروائیاں شروع کرنے کے بعد سے یہ اسپتال دہشت گرد تنظیموں کا ایک اہم مرکز بن گیا تھا اور دہشت گردوں کے ٹھکانے کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔
اسرائیلی حملے میں شمالی غزہ کے آخری اسپتال کو جلا دیا گیا
ڈبلیو ایچ او نے کہا ’’کمال عدوان اب خالی ہے، نازک حالت والے بقیہ 15 مریضوں، نگرانی کرنے والے 50 افراد اور 20 ہیلتھ ورکرز کو جمعہ کو انڈونیشیائی اسپتال منتقل کیا گیا، جسے پہلے ہی تباہ شدہ اور غیر فعال قرار دیا جا چکا ہے۔
ابتدائی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ چھاپے کے دوران اسپتال کے کچھ حصے جل چکے ہیں اور انھیں شدید نقصان پہنچا ہے، جن میں لیبارٹری، سرجیکل یونٹ، انجینئرنگ اور مینٹیننس ڈیپارٹمنٹ، آپریشن تھیٹر اور میڈیکل اسٹور شامل ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ وہ کمال عدوان اسپتال کے ڈائریکٹر کے لیے بہت فکر مند ہے، جنھیں مبینہ طور پر چھاپے کے دوران حراست میں لے لیا گیا ہے، چھاپا شروع ہونے کے بعد سے ڈبلیو ایچ او کا ان سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔