تازہ ترین

جیتے گا بھئی جیتے گا…(چند مقبول انتخابی نعرے)

انتخابی مہم کے دوران جہاں عوام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی زبانی ان کا منشور اور اپنے حق میں مختلف وعدے سنتے ہیں، وہیں ان جلسوں میں نت نئے نعرے بھی عوام کے کانوں میں پڑتے ہیں۔ انتخابات سے قبل گلی کوچوں کی دیواروں پر بھی یہی نعرے دکھائی دیتے ہیں۔

آٹھ فروری کو پاکستانی شہری عام انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے اور الیکشن کے نتائج کی بنیاد پر نئی حکومت قائم ہو گی۔ ملک بھر میں سیاسی جلسے اور امیدواروں کی انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ عوام کے مسائل، مشکلات اور مطالبات آج بھی لگ بھگ وہی ہیں جنھیں حل کرنے کا وعدہ اور یقین دہانیاں یہ سیاسی جماعتیں ماضی میں بھی انتخابات کے موقع پر کرواتی رہی ہیں۔ گزشتہ کئی برس کے دوران عوام کے ان "بہی خواہوں” نے بلاشبہ ایک کام بڑی ‘درد مندی’ سے کیا اور وہ ہے عوام کے حق میں قانون سازی اور اداروں کی سطح پر عوام کے مفاد میں اصلاحات۔

مختلف ادوارِ حکومت میں قانون سازی اور اصلاحات کا مقصد شہریوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانا، سہولیات کی فراہمی کا عمل تیز کرنا اور اسے مؤثر بنانا، سرکاری اداروں میں ہر سطح پر عملے کی کارکردگی بہتر بناتے ہوئے رشوت ستانی اور بدعنوانی کا راستہ مسدود کرنا، اداروں میں خرچ اور آمدن میں شفافیت کو یقینی بنانا اور ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق دینا رہا ہے۔ لیکن یہ امر تعجب خیز بھی ہے اور عوام کے ساتھ ایک مذاق بھی کہ آج کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی ان قوانین اور اصلاحات کے وسیعُ البنیاد مؤثر اور قابلِ ذکر نتائج سامنے نہیں آسکے۔

یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب سیاست داں، جاگیر دار اور مراعات یافتہ طبقہ اس فرسودہ نظام کو لپیٹ کر حقیقی معنوں میں‌ ملک اور عوام کی ترقی و خوش حالی چاہیں گے۔

عام انتخابات سے قبل آج پھر سیاست دانوں کی دھواں دھار تقریروں اور کارکنوں کے نعروں نے پاکستان کے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی ہے۔ ماضی میں بھی انتخابی جلسوں میں ایسے ہی نعرے گونجتے رہے ہیں اور ان میں سے چند نعرے بہت مقبول ہوئے تھے۔ یہ تحریر انہی مقبول سیاسی نعروں کے بارے میں ہے۔

پاکستان میں عام انتخابات پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ سب سے پہلے مارچ 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوئے، جس کے بعد دسمبر 1951ء میں سرحد کی اسمبلی کے لیے نمائندوں کا انتخاب کیا گیا۔ دو سال بعد مئی 1953ء میں سندھ اسمبلی معرضِ وجود میں آئی۔ پھر 1954ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ تاہم اس وقت انتخابات میں ووٹنگ کی شرح اور معیار خاصا پست رہا تھا۔ ایک نئے ملک کی حیثیت سے اس وقت کئی انتظامی مسائل اور رکاوٹیں‌ بھی تھیں۔ تاہم انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اکثر حلقوں نے اسے غیر شفاف قرار دیا تھا۔ ان انتخابات کے لیے ”جھرلو“ کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی جو دھاندلی اور جعل سازی کے معنوں میں مستعمل ہے۔ 1954ء میں پاکستان کی دوسری قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی لیکن 1958ء میں اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے سیاسی بساط لپیٹ کر ملک میں پہلا مارشل لا لگا دیا۔ ایوب خان نے 1965ء میں صدارتی انتخابات کرائے، جس میں صدر کا انتخاب ان کے دیے ہوئے بنیادی جمہوری نظام (بی ڈی سسٹم) کے نمائندوں نے کیا۔ 2 جنوری 1965ء کو ان انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے مابین انتخابی معرکہ ہوا اور تاریخ بتاتی ہے کہ فاطمہ جناح کو دھونس اور دھاندلی کی مدد سے شکست دی گئی۔ محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین اور ایوب خان کا انتخابی نشان پھول تھا۔ اس مناسبت سے بڑے شہروں اور قصبات کی دیواروں پر یہ شعر نعرے کی صورت میں لکھا دکھائی دیتا تھا، ”ایک شمع جلی جل جانے کو، ایک پھول کِھلا مرجھانے کو۔“

دوسری طرف ایوب خان کی حمایت میں پوسٹر پر جو نعرہ درج تھا، وہ تھا، ”ملّت کا محبوب…. ایّوب ایّوب۔“ یہیں سے سیاسی جلسوں میں کارکنوں اور انتخابی مہمّات کے دوران عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے نعرے بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے۔

1970ء کے انتخابات کو مبصرین نے غیرجانب دار قرار دیا تھا۔ اس کے لیے انتخابی مہم کے دوران کئی منفرد اور پُرکشش نعرے سامنے آئے جن میں ایک سیاسی نعرہ پیپلز پارٹی نے دیا جو آج بھی گونج رہا ہے۔ یہ نعرہ ہے ”روٹی، کپڑا اور مکان۔“ اسی طرح پیپلز پارٹی میں پنجاب کی تنظیم کے صدر شیخ محمد رشید جنھیں اس وقت بابائے سوشلزم بھی کہا جاتا تھا، انھوں نے ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یہ نعرہ بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب جھکاؤ رکھنے والوں میں بہت مقبول ہوا تھا۔ اسی انتخابی مہم میں ذوالفقار علی بھٹو نے ”طاقت کا سرچشمہ عوام“ کا جذباتی نعرہ دے کر بھی لوگوں کی توجہ حاصل کی تھی۔

70 کے ان انتخاب میں بہت سی ایسی نظمیں بھی عوامی جلسوں اور کارکنوں کے اجتماعات میں پڑھی جاتی تھیں جن کے اشعار یا مصرع نعروں کی صورت میں مجمع میں بلند ہوتے اور ماحول کو گرما دیتے۔ اُس وقت پاکستان پیپلز پارٹی ایک نئی جماعت کے طور پر ابھر رہی تھی۔ پارٹی کے بانی لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو نے عوام سے انتخابی اخراجات پورے کرنے کے لیے امدادی رقم کی اپیل بھی کی تھی۔ یہ اپیل بھی نعرے کی شکل میں کی گئی اور عوام کو اس طرح‌ متوجہ کیا گیا، ”بھٹو کو ووٹ دو، پی پی کو نوٹ دو“۔

جماعتِ اسلامی کے کارکن اپنے سیاسی مخالفین کو اس طرح للکارتے تھے، ”لاؤ ترازو، تول کے دیکھو، ساڈا پلہ بھاری ہے۔ “ 1970ء ہی کے الیکشن میں علاّمہ شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان انتخابی نشان ”چابی“ پر دنگل میں اتری تھی۔ جے یو پی کے کارکن اس نشان کی مناسب سے یہ نعرہ لگاتے تھے، ”چابی، جنّت کا تالا کھولے گی“۔

بعد میں 1977ء کے انتخابات کا شور ہوا تو اس وقت نو جماعتوں نے ”پاکستان قومی اتحاد“ کے نام سے جڑنے کے بعد انتخابی مہم شروع کی۔ ان کا انتخابی نشان ”ہَل“تھا، اور جلسوں میں ”ہل نے مچا دی ہلچل ہلچل“ کا نعرہ گونجنے لگا۔ جولائی 1977ء میں ضیاءُ الحق کے مارشل لا اور بھٹو کی پھانسی کے بعد آج تک ہر الیکشن میں پیپلز پارٹی کا ایک مقبول نعرہ ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب آمریت کے خلاف میدان میں تھیں اور انتخابی اکھاڑے میں اتریں تب ان کے جلسوں میں نعرہ بھی سنا گیا، بھٹو کی تصویر، بے نظیر بے نظیر۔

اُدھر ضیاءُ الحق کے "مداح” بھی کم نہیں تھے۔ صدارتی ریفرنڈم کے زمانے میں ضیاءُ الحق کی حمایت میں جلسوں میں ”مردِ مومن مردِ حق، ضیاءُ الحق ضیاءُ الحق“ کا نعرہ بہت مقبول تھا۔ ملک بھر میں گلی کوچوں کی دیواریں اس مدح سرائی کا "بار” اٹھائے ہوئے تھیں۔ ضیاء دور میں پیپلز پارٹی کے کارکنان نہ جھکنے والی بے نظیر، نہ بکنے والی بے نظیر کے نعرے لگاتے تھے۔ ضیاءُ الحق کے فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد 1988ء میں عام انتخابات کرائے گئے تو بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ اس سے قبل بے نظیر جب ضیا دور میں لاہور آئی تھیں تو ”بے نظیر آئی ہے، انقلاب لائی ہے اور جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا“ جیسے نعرے کارکنوں کی زبان پر ہوتے تھے۔ اس سے دو سال قبل وجود میں آنے والے اسلامی جمہوری اتحاد نے 1990 کے الیکشن میں سائیکل کے انتخابی نشان کے ساتھ یہ نعرہ لگایا تھا، ”اپنی قسمت آپ بنائیں سائیکل پر مہر لگائیں۔“ نواز شریف کے کارکنوں کا نعرہ تھا،”میاں نے مچا دی ہلچل۔‘ آئی جے آ ئی کے نو جماعتوں والے اتحاد نے اپنے انتخابی نشان سائیکل کی مناسبت سے عوام کو ایک نعرہ ”نو ستارے سائیکل نشان، جیوے جیوے پاکستان“ دیا تھا۔

2002ء میں عام انتخابات ہوئے اور پرویز مشرف ملک کے صدر بنے تو عوام نے ایک نیا نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان“ سنا۔ آج یہ نعرہ ملکی سالمیت اور بقا کے حوالے سے کسی نہایت اہم اور بڑے فیصلے کے بعد الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ حکم رانوں کی زبان سے ادا ہوتا رہتا ہے۔

پیپلز پارٹی نے 2008ء کے عام انتخابات میں ”علم، روشنی، سب کو کام۔ اور وہی پرانا مگر نہایت مقبول نعرہ اضافہ کے ساتھ یعنی ”روٹی، کپڑا اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان“ لگایا تھا۔ اس الیکشن میں نواز شریف کے انتخابی نشان شیر کی مناسبت سے سب سے مقبول نعرہ ”دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا“ تھا۔ اس وقت کے مقبول نعروں میں قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں بھی تھا، اس کے بعد جب آصف علی زرداری نے بحیثیت صدر پاکستان حلف اٹھایا تو عوام نے”ایک زرداری سب پر بھاری“ کا دل چسپ نعرہ بھی سنا۔

کراچی اور شہری سندھ میں مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہونے والی جماعت نے انتخابی مہمات میں وہ نعرے نہیں لگائے جو ہر زبان اور قومیت کے لوگوں کو فوری اپنی جانب کھینچ لیتے، لیکن قائد کے فرمان پر جان بھی قربان ہے، ہم نہ ہوں ہمارے بعد الطاف الطاف اور حق کی کھلی کتاب الطاف، الطاف متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کے مقبول نعرے رہے۔

1990ء اور 2002ء کے الیکشن میں طاہر القادری کی جماعت ”پاکستان عوامی تحریک“ کا نعرہ ”جرأت و بہادری طاہر القادری“ تھا، اور بعد میں ان کی جانب سے نعرہ ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ لگایا گیا۔ پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا مقبول نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان‘ ہی رہا۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے ”انصاف، انسانیت، خود داری“ کے علاوہ ”تبدیلی کا نشان عمران خان“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔

Comments

- Advertisement -