اشتہار

عام انتخابات کیس، حکومت کی مذاکرات کے لیے مزید وقت اور پی ٹی آئی کی 14 مئی کو الیکشن کے حکم پر عملدرآمد کی استدعا

اشتہار

حیرت انگیز

سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت ہوئی وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے مذاکرات کے لیے مزید وقت جب کہ پی ٹی آئی نے 14 مئی کو الیکشن کے حکم پر عملدرآمد کی استدعا کی ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت عظمیٰ سے مذاکرات کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا کی جب کہ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت عظمیٰ نے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے اپنے حکم پر عملدرآمد کی استدعا کردی۔

سماعت کے دوران ن لیگ کے رہنما سعد رفیق اور پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے اپنے موقف عدالت کے سامنے رکھے جن کو سننے کے بعد عدالت نے سماعت کو ملتوی کر دیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی سماعت کا مناسب حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔

- Advertisement -

آج سماعت شروع ہوئی تو وفاقی حکومت کے فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو اتحادی حکومت کا جواب پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ قرضوں میں 78 فیصد، سرکلر ڈیٹ میں 125 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ سیلاب کے باعث 31 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے۔ مذاکرات میں لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہوا ہے تاہم اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ حکومت ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو تیار ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ہر حال میں اسی سال اور ایک ہی دن ہونے چاہئیں۔ سندھ اور بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں، مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہوسکتی اور ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے۔ پیپلز پارٹی یقین رکھتی ہے کہ بغیر مداخلت معاملات حل کیے جا سکتے ہیں اس لیے مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ فنانس منسٹر کے دستخط سے جمع ہوئی ہے۔ سیاسی ایشوز کو سیاسی قیادت حل کرے۔ موجودہ درخواست ایک حل پر پہنچنے کی ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات اور وفاقی بجٹ اس وقت بہت اہم ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بجٹ صرف قومی اسمبلی پاس ہی کرسکتی ہے۔ آج پنجاب یا کے پی حکومت ختم نہ ہوتی تو یہ مسئلہ کھڑا نہ ہوتا اور آپ کو پھر تکلیف نہ دی جاتی، اس وجہ سے عدالت کا دوسرا کام ڈسٹرب ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر زور دیا گیا ہے۔ عدالت میں ایشو آئینی ہے سیاسی نہیں، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدہ، ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟

حکومتی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بجٹ کیلئے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے۔ اسمبلیاں نہ ہوں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا، افہام وتفہیم سے معاملہ طے ہو تو بحرانوں سے نجات مل جائیگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی تحلیل پر بھی بجٹ کیلئے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ اس کا جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارات کے مطابق دوست ممالک بھی قرضہ آئی ایم ایف پیکیج کے بعد دینگے، انہوں نے یہ بھی استفسار کیا کہ کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے تحت بنتا ہے؟ کیا پی ٹی آئی نے بجٹ کی اہمیت کو قبول کیا یا رد کیا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں انتخابات کیلئے 90 دن کی حد سے کوئی انکار تو نہیں کرسکتا جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 90 روز میں انتخابات کرانے میں کوئی دو رائے نہیں ہے لیکن عدالت کو 90 روز میں انتخابات والے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا، انتخابات کے لئے نگراں حکومتوں کا ہونا ضروری ہے، منتخب حکومتوں کے ہوتے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا، یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب 23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے اور آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں تو عدالت نے سنا ہی نہیں تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے راؤنڈ میں آپ نے بائیکاٹ کیا تھا، کبھی فیصلہ حاصل کرنےکی کوشش ہی نہیں کی، آپ صرف چار تین کی بحث میں لگے رہے، جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کا نقطہ اٹھایا تھا، حکومتی دلچسپی ہی نہیں تھی، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں، کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا۔

چیف جسٹس نے پھر کہا کہ یہ قومی اور عوامی اہمیت کیساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے اور عدالت 90 روز میں انتخابات کرانے پر فیصلہ دے چکی ہے۔ کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے اور اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا چاہتی ہے۔ آئین کے مطابق فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین کا استعمال کرسکتے ہیں۔

سماعت میں حکومتی وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے روسٹروم پر آئے اور دلائل دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کے اپنے حکم پر عملدرآمد کی استدعا کردی۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تحریک انصاف نے ایک دن الیکشن کرانے پر اتفاق کیا ہے، تاہم حکومت سے مذاکرات میں تین شرط رکھی تھی کہ اسمبلیاں 14 مئی تک تحلیل کی جائیں دوسری شرط یہ تھی کہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں الیکشن کرائے جائیں اور تیسری شرط یہ تھی کہ تیسری شرط تھی انتخابات میں تاخیرکو آئینی ترمیم کے ذریعے قانونی شکل دی جائے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ حکومت نے 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست نہیں کی، 14 مئی چند دن بعد ہے لیکن فنڈز جاری نہیں ہوئے۔ فاروق ایچ نائیک نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے، آئین سے باہر نہیں جایا جا سکتا، نظریہ ضرورت کی وجہ سے الیکشن مزید تاخیر کا شکار نہیں کرسکتے۔ انہوں نے استدعا کی کہ عدالت اپنے حکم پر عملدرآمد کراتے ہوئے فیصلہ نمٹا دے۔

حکومتی وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس پر فیصلہ نمٹا دیں کہ فریقین ایک تاریخ پر الیکشن کرانے پر متفق ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پرچھوڑا جائے۔ فاروق نائیک نے کہا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف وعدے کرتے ہیں۔

عدالت میں ن لیگی رہنما سعد رفیق اور پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی اپنا اپنا موقف پیش کیا جس کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کردی اور چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آج کی سماعت پر مناسب حکمنامہ جاری کرے گی۔

Comments

اہم ترین

عبدالقادر
عبدالقادر
عبدالقادر پچھلے 8برس سے اے آر وائی نیوز میں بطور سینئر رپورٹر خدمات انجام دے رہے ہیں، آپ وزیراعظم عمران خان اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف سے جڑی خبروں اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

مزید خبریں