کراچی: گورنر سندھ عمران اسماعیل نے سانحہ کشمور میں ملزمان کو گرفتار کرنے والے اے ایس آئی کو سول ایوارڈ، ماں کو پانچ لاکھ روپے اور بچی کو تاحیات اسکالر شپ سمیت متاثرہ خاتون کو میری ٹائم میں ملازمت دینے کا اعلان کردیا۔
اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ سینٹر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون سے ملاقات اور بچی کی عیادت کی۔
پروفیسرڈاکٹر جمال رضا نے گورنرسندھ کو بچی کےعلاج سےمتعلق آگاہ کیا۔ عمران اسماعیل نے ہدایت کی کہ بچی کی مکمل صحت یابی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں اور ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔ گورنر سندھ نے بتایا کہ وزیراعظم نے حکم دیا ہے کہ بچی کو اگر علاج کیلئے بیرون ملک بھیجنا پڑا تو اُسے بھیج دیں گے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ اے ایس آئی محمد بخش کی جرأت کو سلام پیش کرتا ہوں،انہوں نے جس انداز سے بچی اور ماں کو بازیابی کروا کے ملزمان کو گرفتار کیا اُس پر پوری قوم کو اُن پر فخر ہے۔
مزید پڑھیں: سانحہ کشمور کیس میں گرفتار مرکزی ملزم ساتھی کی فائرنگ سے ہلاک
گورنر سندھ نے اعلان کیا کہ اے ایس آئی محمد بخش کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دیا جائے گا، ان تمام پولیس اہلکاروں کا ذاتی طور پر مشکور ہوں جو ایکشن کےوقت موجود تھے،سندھ پولیس نے ایک ملزم کو جہنم واصل کردیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم اس واقعے پر سخت افسردہ اور رنجیدہ ہیں، انہوں نے محمد بخش کو فون کر کے شاباش بھی دی ہے، وزیراعظم بہت جلد اے ایس آئی سے ملاقات کریں گے کیونکہ وہ ہمارے وطن کا ہیرو ہے‘۔
عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’سندھ پولیس کو ملزمان کی گرفتاری پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، گرفتارمجرموں کو عدالتیں قرار واقعی سزا دیں گی‘۔
گورنر سندھ نے بچی کی والدہ کو پانچ لاکھ روپے اور بچی کو تاحیات اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وزارت بحری امور بچی کو تاحیات اسکالر شپ دے گی جبکہ والدہ کو میری ٹائم میں ملازمت بھی دی جائے گی‘۔
کیس کا پس منظر
کراچی کے جناح اسپتال میں ملازمت کرنے والی خاتون کو چالیس ہزار روپے تنخواہ کی ملازمت کا جھانسہ دے کر کشمور بلایا گیا تھا، وہ اپنی چار سالہ بچی کے ساتھ ملازمت کی غرض سے کشمور پہنچی تھیں۔
تین روز قبل ملزمان نے خاتون کو مزید خواتین لانے کی شرط پر رہا کیا اور بچی کو اپنے پاس روک لیا تھا، ملزمان نے خاتون کو دھمکی دی تھی کہ اگر اُس نے واقعے سے متعلق کسی کو بتایا تو وہ بچی کو قتل کردیں گے۔
ملزمان نے خاتون کو رہا کیا تو وہ سیدھی کشمور تھانے پہنچیں جہاں انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے متعلق پولیس حکام کو آگاہ کیا۔
ملزم کی گرفتاری اور بچی کی بازیابی کیسے ممکن ہوئی؟
کشمور تھانے میں تعینات سندھ پولیس کے اے ایس آئی محمد بخش نے زیادتی کا نشانہ بننے والی ماں اور اس کی کمسن بیٹی سے زیادتی میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے اپنی بیٹی اور بیوی کی قربانی دی۔
اے ایس آئی نے ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے ان کی خواہش پر متاثرہ خاتون کے موبائل سے اپنی بیٹی اور بیوی کی ملزم سے بات کروائی انہیں ہوٹل پر بلایا جس کے بعد پولیس نے ایک رفیق نامی ملزم کو گرفتار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: کشمور واقعہ: پولیس افسر کی بیٹی کیلئے انعام کا اعلان
رفیق کی نشاندہی پر پولیس نے اُس کے گھر سے چار سالہ بچی (خاتون کی بیٹی) کو بازیاب کروایا، پولیس حکام کے مطابق بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔
میڈیکل رپورٹ میں زیادتی ثابت
پولیس نے متاثرہ ماں اور بچی کو اسپتال منتقل کیا جہاں دونوں کا میڈیکل کیا گیا تو ڈاکٹرز نے زیادتی کی تصدیق کی جبکہ دونوں کے جسموں پر تشدد کے گہرے نشانات موجود تھے۔ ایس ایچ او کشمور اکبر چنا نے بھی تصدیق کی کہ میڈیکل رپورٹ میں زیادتی ثابت ہوئی ہے۔
سندھ حکومت کا پولیس افسر کے لیے نقد انعام کا اعلان
سندھ حکومت نے ماں اوربیٹی سے زیادتی کے ملزم کی گرفتاری میں مدد دینے والے پولیس افسر کی بیٹی کیلئے دس لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا۔ سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ ایسی بہادری دکھانے پر وفاقی حکومت سے پولیس افسر کو سول ایوارڈ دینے کی سفارش بھی کریں گے۔
مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ کشمورمیں تعینات اےایس آئی محمدبخش نے ملزمان کی گرفتار کے لیے جس انداز سے کارروائی کی اُس پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، انہوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وحشیانہ کارروائی میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا۔
گرفتار ملزم کی ہلاکت
پولیس نے رفیق ملک نامی ملزم کو گرفتار کیا جس کے بعد جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بلوچستان کے علاقے سوئی فرار ہونے والے دوسرے اہم ملزم رحمت اللہ بگٹی کو گرفتار کیا گیا، پولیس رفیق ملک کو اپنے ہمراہ شناخت کے لیے لے کر گئی کہ اسی دوران رحمت اللہ بگٹی نے پولیس پارٹی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ملزم رفیق ہلاک ہوگیا تھا۔